پھر بکھرنے کی حماقت نہیں کر سکتا میں
تجھ سے دوبارہ محبت نہیں کر سکتا میں
مجھ کو معلوم ہے یہ لوگ منافق ہیں دوست
ایسے لوگوں کی امامت نہیں کر سکتا میں
تجھکو پانے کیلئے جنگ اگر لازم ہے
جیت جانے پہ رعایت نہیں کر سکتا میں
دونوں کردار کہانی سے الگ ہو گئے ہیں
کیا ہوا اس کی وضاحت نہیں کر سکتا میں
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ترا نام نہیں
تو امانت ہے خیانت نہیں کر سکتا میں
جو فسانے کو فسانہ نہیں رہنے دیتے
ایسے لوگوں سے روایت نہیں کر سکتا میں
No comments:
Post a Comment