اپنے ہونے کی نشانی سے الگ ہو رہا ہے
میرا کردار کہانی سے الگ ہو رہا ہے
تپتے صحراؤں کا کیا حشر ہوا کرتا ہے
اس کو سمجھاؤ جو پانی سے الگ ہو رہا ہے
اب مری بات کا مطلب نہیں ہوتا کچھ بھی
لفظ اس طرح معانی سے الگ ہو رہا ہے
یاں سبھی لوگ پلٹتے ہیں بہاروں کا ورق
سو دل اوراق خزانی سے الگ ہو رہا ہے
جس نے موجوں کے حوالے مری کشتی کر دی
خود ہی دریا کی روانی سے الگ ہو رہا ہے
No comments:
Post a Comment