یہ جو ہم جبہ و دستار سنبھالے ہوئے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ بیکار سنبھالے ہوئے ہیں
تجھکو معلوم نہیں تیری ہنسی کو اب تک
تیرے لب پر ترے غم خوار سنبھالے ہوئے ہیں
ہم کو معلوم ہے ٹوٹی تو قیامت ہوگی
اس لئے بیچ کی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
کل جہاں آپ نے بیچا تھا ہمیں آج وہیں
ہم خریدار ہیں بازار سنبھالے ہوئے ہیں
بس یہی بات مجھے سب سے بری لگتی ہے
یار کو بزم میں اغیار سنبھالے ہوئے ہیں
ہائے کیا عشق کا منظر ہے مری آنکھوں میں
پھول کو شاخ پہ کچھ خار سنبھالے ہوئے ہیں
ہم نہیں لوٹتے عزت تری اجلاسوں میں
شاعری ہم ترا معیار سنبھالے ہوئے ہیں
No comments:
Post a Comment