Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Monday, January 29, 2024

جو بنا دیتی ہے تقدیر بنے رہتے ہو

جو بنا دیتی ہے تقدیر بنے رہتے ہو
کبھی کابل کبھی کشمیر بنے رہتے ہو

کس کے قیدی ہو کو ڈرتے ہو رہائی سے تم
خود ہی اپنے لیے زنجیر بنے رہتے ہو

کون سا غم ہے جو دیوار سے لگ جاتے ہو
کون سا دکھ ہے جو تصویر بنے رہتے ہو

کس حقیقت سے سدا بھاگتے رہتے ہو تم
اور کس خواب کی تعبیر بنے رہتے ہو

مجھے لگا تھا مری بد دعا نہیں لگتی

پڑا ہوں شہر محبت میں بے در و دیوار
کسی بھی سمت سے مجھکو ہوا نہیں لگتی

میں آج دیکھ کے اس شخص کو اُداس ہوا
مجھے لگا تھا مری بد دعا نہیں لگتی

سنا تھا دل نہیں لگتا بِچھڑ کے تم سے مگر
مجھے تو تم سے بِچھڑ کر غذا نہیں لگتی

تو کیا تمہیں نہیں لگتا کہ جنگ میں ہیں ہم
یہ زندگی تمہیں کیا کربلا نہیں لگتی

بدل گیا ہے ترے بعد شہر خواب و خیال
سو اب یہاں کی بھی آب و ہوا نہیں لگتی

میں بے مدار ہوا ہوں کچھ اس طرح انعام
کوئی بھی شے مجھے اپنی جگہ نہیں لگتی

شکستہ حال ہے پر حوصلہ نہیں ہارا

شکستہ حال ہے پر حوصلہ نہیں ہارا
یقین کر کہ ترا مبتلا نہیں ہارا

اے مجھ کو جیتنے والے میں اب بھی اسکا ہوں
کہ میرے واسطے وہ شخص کیا نہیں ہارا

سنبھال لونگا میں اس لڑکھڑاتی لو کو بھی
چلی تھی پہلے بھی ایسی ہوا نہیں ہارا

کہ اب کے جنگ میں یاروں سے آشنائی ہوئی
میں جنگ ہار کے اس مرتبہ نہیں ہارا

اِک تیر آسمان سے آتا ہے میری سمت

یہ تو جو اتنے دھیان سے آتا ہے میری سمت
لگتا ہے اک پلان سے آتا ہے میری سمت

دشمن کے راستے میں ہے دیوار اس لیے
ہر زخم مہربان سے آتا ہے میری سمت

جب سوچتا ہوں اب کوئی دشمن نہیں رہا
اِک تیر آسمان سے آتا ہے میری سمت

اس موسم بہار کا اب میں شکار ہوں
سو پھول اس کمان سے آتا ہے میری سمت

خود کو بچائے رکھتا ہوں دشمن کے وار سے
لیکن جو خاندان سے آتا ہے میری سمت



Monday, July 24, 2023

مجھ سے بِچھڑ گیا ہے تو کیا روشنی کرے

مجھ سے بِچھڑ گیا ہے تو کیا روشنی کرے
جس طاق پر رہے وہ دیا روشنی کرے

بجھنے سے پہلے سوچ ذرا اے مرے چراغ 
کوئی نہیں جو تیری جگہ روشنی کرے

میں نے یہ کب کہا تُجھے تو میرا ساتھ دے
میں نے یہ کب کہا کہ ہوا روشنی کرے

کوئی اب اس چراغ بدن سے کہے کے آئے
اور میرے اندرون ذرا روشنی کرے

Wednesday, October 4, 2017

منقبت-امام عالی مقام

بیٹھے تھے سوگوار پرندے درخت پر
کربل میں وار جب ہوا مستوں کے مست پر

ﷲ کیا مقام ہے چھو کر لب حسین
ہے تشنگی کو ناز بہت اپنے بخت پر

دنیا میں اب یزید کا نام و نشاں نہیں
بیٹھے ہیں اب بھی شاہ محبت کے تخت پر

ہیں زندگی کے بعد بھی زندہ مرے امام
حیرت زدہ ہے موت بھی اپنی شکست پر

مولی بروز حشر مجھے اس کے ساتھ رکھ
اسلام ناز کرتا ہے جس حق پرست پر

ہیں  اس لئے بلند بلندی سے بھی حسین
بیعت نہ کی یزید کے ناپاک دست پر

انعام عازمی

نظم

آؤ گریہ کریں
کپکپاتی ہوئی ان چراغوں کی لو دیکھ کر
جو ہمیں کہہ رہی ہیں کہ اب روشنی ختم ہونے کو ہے
اب یہاں تیرگی اپنے بانہوں کو پھیلائے گی
اور یہ اندھے جنہیں روشنی کاٹتی ہے سدا
اس کی بانہوں میں اپنی ہوس کو مٹانے چلے آئیں گے
آؤ  گریہ کریں
اس بدلتے ہوئے وقت کو دیکھ کر
جس میں اب پریم کی کوئی بھاشا نہیں
کوئی آشا نہیں
جس میں انسانی شکلوں میں چاروں طرف بھیڑئے پھر رہے ہیں
جنہیں
خون کی چاہ ہے
خون بھی وہ جو انسانیت کے طرفدار ہیں
آؤ ماتم کرے
آخری سانس لیتی ہوئی اپنی تہزیب پر
جس کو ہم نے بچانے کا وعدہ کیا تھا کبھی

آؤ ماتم کریں
اور یہ مان لیں
اب کوئی آکے آنکھوں سے نہیں پوچھے گا
اب کوئی آکے ہم سے کہے گا نہیں
"دوستا!! وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا"

آؤ گریہ کریں
آہ و زاری کریں
خود کو مٹتے ہوئے دیکھ کر