Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, April 9, 2016

غزل

وہ کشتی جو پانی میں تھی
عجب خوشگمانی میں تھی
جو قسمت میں تھی غیر کے
مری   زندگانی    میں    تھی
میں اپنی جوانی میں تھا
وہ اپنی جوانی میں تھی
حقیقیت نہیں خواب تھی
جو میری کہانی میں تھی
یوں راجا نہیں مر گیا
کوئی بات رانی میں تھی
بہا   لے    گئی    زندگی
ندی جو روانی میں تھی

نظم

آج کل زندگی
ہے عجب راہ پر گامزن
یہ کہاں جائیگی کچھ خبر ہی نہیں
آج کل ہر گھڑی
ہے تردد کا احساس دل میں مکیں
چیختی ہے صدا میرے اندر کوئی
اک کسک سی ابھرتی ہے دل میں مرے
جیسے میں
اک اداسی کے گہرے سمند میں گر جاؤں گا
گر کے مر جاؤں گا
میں اگر بچ گیا
تو بھی کیا فائدہ
کوئی ایسا نہیں
جو اداسی کے گہرے سمندر سے باہر نکالے مجھے
جو مرا ساتھ دے
جو سنبھالے مجھے
خیر یہ بات ہے بعد کی
یہ محض واہمہ ہے مرا
ان دنوں تو فقط ایک ہی ڈر ہے مجھ کو کہ میں
بڑھ رہا ہوں جدھر
میری منزل کا وہ راستہ ہی نہیں
سچ کہوں ان دنوں
ایسا لگنے لگا ہے مجھے
جیسے اک آگ مجھ میں بھڑک جائے گی
میری ہر خواہشیں راکھ ہو جائیں گی
میرے ہر خواب آنکھوں میں ہی دفن ہو جائیں گے
اور میرا وجود
جو اب ہے ہی نہیں
ختم ہو جائے گا

انعام عازمی

غزل

غزل

ہر وقت اب زوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
صورت عجب بحال ہے میں ہوں کہ میں نہیں

تو جانتا ہے مجھکو بہت ہی قریب سے
تجھ سے مرا سوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں

تصویر آئینے میں مری مجھ سے ہے الگ
اے یار کیا خیال ہے میں ہوں کہ میں نہیں

آنکھوں میں دفن ہو گئے میرے تمام خواب
اور جسم پایمال ہے ,میں ہوں کہ میں نہیں

ہے کشمکش میں ذات میری کب سے مبتلا
کتنا عجیب حال ہے ,میں ہوں کہ میں نہیں

ہر شخص اب خموش ہے منظر سبھی خموش
دھڑکن کی ایک تال ہے, میں ہوں کہ میں نہیں

رد کر رہی ہے زیست مجھے جس طرح انعام
اب تو یہی سوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں

انعام عازمی

Tuesday, April 5, 2016

غزل

ﺗﻮ ﮨﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﻨﻢ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ, ﺑﮭﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ
تجھ سے بہتر تو ہزاروں ہیں یہیں , بھاڑ میں جا

ہم  پہ احسان نہ کر, چھوڑ ہمیں, راستہ لے
دل لگالیں گے ہم اب اور کہیں, بھاڑ میں جا

تو اذیت ہے,مصیبت ہے,بلا ہے کوئی
تجھ سا دیکھا ہی نہیں میں نے کہیں, بھاڑ میں جا

ہے خبر مجھکو مری جان کی دشمن ہو تم
کیا کہا تم نے؟ کروں تم پہ یقیں ؟ بھاڑ میں جا

مانتا ہوں کہ کبھی پیار کیا تھا تم سے
اب نہیں ہے تو مرے دل کا مکیں ,بھاڑ میں جا

انعام عازمی

غزل

جانے والا بھول چکا ہے
کوئی رستہ دیکھ رہا ہے

خاموشی اب بول رہی ہے
چہرے پہ سب کچھ لکھا ہے

بیچ میں اک دیوار کھڑی ہے
دونوں جانب سے رستہ ہے

آنکھ حقیقت دیکھ رہی ہے
ذہن پھر بھی خواب سجا ہے

"سپنے بھی سچ ہو جاتے ہیں"
جھوٹ ہے یہ,کس نے لکھا ہے؟

چھوٹی ہے چاہت کی چادر
غم کا پاؤں بہت لمبا ہے

نا بینوں کے شہر میں جاکر
کس نے آئینہ رکھا ہے

اس کے  جانے سے دنیا میں
کتنا سناٹا پھیلا ہے

نا امیدی کے آنچل میں
امیدوں کا  ایک دیا ہے

غم کی ایک کہانی  پھر سے
وقت ابھی لکھنے بیٹھا ہے

ڈوب گیا ہے سورج شاید
چاروں جانب اندھیرا ہے

Saturday, April 2, 2016

غزل

--------------------- ‏( ﻏﺰﻝ ‏) --------------------
ﺧﺪﺍ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﺎ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﺗﮭﺎ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮌ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ
ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺟﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺤﻞ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺗﮭﺎ ﭘﺮ
ﺩﯾﺎ ﺍﮎ ﻃﺎﻕ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺑﺎﻝ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﮎ ﻣﯿﻼ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﺮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ
ﺳﺮ ﻣﻘﺘﻞ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮔﻠﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﮦ ﺭﮦ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﭼﯿﺨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻭﮦ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
" ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻮﺍ ﺣﺎﺩﺛﮧ ﮨﮯ "
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﭘﺠﺎﺭﻥ ﻣﺮ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺳﺮ ﭘﭩﮏ ﮐﺮ
ﺗﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﭘﺮﮐﭧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻋﺎﺯﻣﯽ