Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Thursday, October 27, 2016

غزل

غزل

ہم نے پلکوں پہ کبھی غم کی نمائش نہیں کی
درد میں ڈوبے رہے ہجر کی خواہش نہیں کی

دل کی بستی میں رہا غم کا بسیرا ہر دم
میرے قسمت کے ستاروں نے بھی گردش نہیں کی

خواب سب ڈوب گئے درد کی برساتوں میں
کون کہتا ہے مری آنکھوں نے بارش نہیں کی

مجھ سے کہتا تھا مرا ساتھ نبھائے گا وہ
ٹوٹ جانے پہ بھی کم بخت نے پرشش نہیں کی

غم کے صحرا میں بھٹکتے رہے تا عمر مگر
منصف وقت سے کوئی بھی گزارش نہیں کی

ہم اگر چاہتے ہر فاصلہ مٹ سکتا تھا
وہ بھی آگے نہ بڑھا میں نے بھی کوشش نہیں کی

انعام

Wednesday, October 26, 2016

غزل

زندگی تونے عجب رہ سے گزارا ہے مجھے
اب فقط درد ہی جینے کا سہارا ہے مجھے

پھر مرے دل   میں کسی درد نے انگڑائی لی
پھر کسی شخص نے ماضی سے پکارا ہے  مجھے

یاں سبھی لوگ کسی اور قبیلے کے ہیں
میرے معبود کہاں تونے اتارا ہے مجھے

جو مقدر کا ستارا تھا مرے,ٹوٹ گیا
"اب مری آنکھ کا آنسو ہی ستارا ہے مجھے"

بس یہی فرق ہے ہم دونوں میں اے دوست مرے
میں جیا ہوں اسے اور اس نے گزارا ہے مجھے

دشمن جاں نے بہت زخم دئے ہیں لیکن
چارہ گر تیری مسیحائی نے مارا ہے مجھے

اب نہیں وصل کی خواہش مرے ٹوٹے دل کو
اب ترا ہجر مری جان گوارا ہے مجھے

Tuesday, October 25, 2016

غزل

چلوں تو راستہ مانگوں گروں تو آسرا مانگوں
مسافر ہوں بھلا اس کے سوا میں اور کیا مانگوں

جسے جو چاہئے ہوتا ہے تو وہ بخش دیتا ہے
مرے بارے میں تو سب جانتا ہے تجھ سے کیا مانگوں

اداسی چیختی ہے رات دن دل کے محلے میں
اندھیرا چار سو پھیلا ہے میں کس سے دیا مانگوں

مقدر میں لکھا ہوگا تو مجھ کو مل ہی جائے گا
میں کیوں اک شخص کو اپنی دعا میں با رہا مانگوں

مجھے تم سے محبت ہے مگر جی چاہتا ہے اب
میں تم کو بھول جاؤں رب سے کوئی دوسرا مانگوں

انعام

Tuesday, October 11, 2016

kavita

कविता

एक तस्वीर जो वर्षों पहले मैने
अपने कमरे की दीवार पे टांगी थी
सोच रहा हुं उसको आँखें दान करूँ
ताकि वो सब देख सके
कैसे ग़म के साए खिरकी से अन्दर आते हैं
कैसे दीवारों पर दूख उगते है
कैसे मैं
उसकी याद में हर लम्हा,अपने अनदर मरता रहती हूँ
कैसे सूबह से शाम तलक
मैं अपने बिखरे ख्वाबों की ताबीरें पढता रहता हूँ
कैसे उम्मीदों का एक दिया
इस कमरे के इक त़ाक पे अब भी रौशऩ है
कैसे इस कमरे में सूरज की किरणें आने से कतराती हैं
कैसे इस कमरे के अन्दर यादें बिखरी रहती हैं

मैं जो वर्षों पहले टूट चुका हूँ
कैसै इस कमरे में जिन्दा रहता हूँ

सोच रहा हुं उसको आँखें दान करूँ
ताकि वो सब देख सके

इन्आम आजमी

غزل

ندی ,تالاب, پنچھی, پیڑ سارے, سب ہمارے تھے
محبت میں جسے اے دوست ہم اک روز ہارے تھے

وہاں کی بستیوں پہ اب اداسی راج کرتی ہے
بہاریں رقص کرتی تھیں جہاں اچھے نظارے تھے

سہانے وقت کی یادیں مجھے اکثر رلاتی ہیں
بہت پیارے تھے وہ لمحے جنہیں مل کر گزارے تھے

وہ میرے ساتھ تھا لیکن میں اس سے مل نہیں پایا
عجب قسمت تھی ہم دونوں ندی کے دو کنارے تھے

بچھڑنے کا لیا تھا فیصلہ تم نے,کبھی سوچا
ہمارے تم نہ تھے ہمدم مگر ہم تو تمہارے تھے

غزل

مجھ سے اب اس کا رابطہ بھی نہیں
جو مری ذات سے جدا بھی نہیں

میں جسے زندگی سمجھتا  ہوں میں
میرے بارے میں سوچتا بھی نہیں

وہ مجھے زخم دے رہا ہے مگر
دل کو اس سے کوئی گلہ بھی نہیں

خود کو قربان کر دیا جس پر
وہ مرے حق میں بولتا بھی نہیں

اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ
اپنے ہونے کا واہمہ بھی نہیں

غزل

درد سے آشنائی ہو رہی تھی
میری مجھ سے جدائی ہو رہی تھی

رو رہی تھیں تمام دیواریں
جانے کس کی رہائی ہو رہی تھی

میری آنکھوں سے خون گر رہے تھے
چیز اپنی پرائی ہو رہی تھی

میں محبت کی بات کر رہا تھا
اور مری جگ ہنسائی ہو رہی تھی

رو رہے تھے عدو کے مرنے پر
جانے کیسی لڑائی ہو رہی تھی

میں غم دل سنا رہا تھا اور
ہر طرف واہ واہی ہو رہی تھی

انعام

غزل

کچھ نہ تھا یقیناً ان ریگزار آنکھوں میں
جب سے اس کو دیکھا ہے,ہے بہار آنکھوں میں

خواب ہو کہ بیداری حال ہے یہی اپنا
کوئی آتا جاتا ہے بار بار آنکھوں میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے اب وہ لوٹ آئے گا
اک امید ہے اب بھی بے قرار آنکھوں میں

چاہ دے اگر لوگو وہ  تو یہ بھی ممکن ہے
کہ خوشی ٹھہر جائے اشکبار آنکھوں میں

ہائے سادگی اس کی کتنی جان لیوا ہے
لب میں مسکراہٹ ہے اور پیار آنکھوں میں

اس سے کب ملا تھا کچھ پتہ نہیں مجھکو
دل میں نقش ہیں یادیں انتظار آنکھوں میں

اس کی آنکھ میں سچ مچ ہے عجیب سا جادو
اس کو ڈھونڈ سکتا ہوں میں ہزار آنکھوں میں

غزل

ہے میری کہانی میں جو کردار تمہارا
دنیا کو بتا دیتا ہے معیار تمہارا

ہم جان رہے ہیں کہ منافق ہے یہاں کون
پر نام نہیں لیں گے مرے یار تمہارا

جس طور بھی چاہو مجھے نیلام کرو تم
یہ لوگ تمہارے ہیں یہ بازار تمہارا

کچھ خواب جو تعبیر کے رستوں پہ کھڑے تھے
وہ ٹوٹ گئے دیکھ کے انکار تمہارا

اے زندگی!!میں ہی تھا محبت کا طرفدار
لو مان لیا میں ہوں گنہگار تمہارا

غزل

کیا ہے وجہہ خامشی یہ سب کہاں سمجھیں گے لوگ
ہم نہ بولیں گے تو ہم کو بے زباں سمجھیں گے لوگ

جھوٹ پہ ایمان لاتے جا رہیں جس طرح
وقت آئے گا زمیں کو آسماں سمجھیں گے لوگ

رائیگاں جائیں گی سب قربانیاں اپنی یہاں
دیکھنا اک دن ہمیں کوہ گراں سمجھیں لوگ

آؤ لکھیں نام اپنا وقت کی دیوار پر
ایک دن ہم کو بھی ورنہ بے نشاں سمجھیں گے لوگ

میں صحفیہ عشق کا تم ہو محبت کی کتاب
اپنے سارے لفظ کو وہم و گماں سمجھیں گے لوگ

اے مکین دل ٹھہر,مت کوچ کر اس شہر سے
تیرے جانے سے ہمیں خالی مکاں سمجھیں گے لوگ

تم مرے بارے میں دنیا سے کبھی مت بولنا
تم ہی سوچو!! کیا ادھوری داستاں سمجھیں گے لوگ؟

انعام عازمی

Saturday, October 8, 2016

Nazm "Hamko Azadi leni Hai"

Hamko Azadi leni hai
Hamko Azadi leni hai

Jo mulk ka sauda karte hain
qanoon ko andha karte hain
aurat ko nanga karte hain
bharat ko ruswa karte hain
un choron se,makkaron se
har zulm ke thekedaron se
Hamko Azadi leni hai

Jo izzat ko neelam kare
jo sirf ghinauna kaam kare
har shakhs jo amn ka dushman ho
har shakhs jo qatle aam kare
ab aisi har bimari se
mazhab ke har bewpari se
Hamko Azadi leni hai

Jo khoon ki holi khelte hain
Nafrat ki boli bolte hain
jo Hindu Muslim kar-kar ke
Bas zahr fiza mein gholte hain
dahshat failane walon se
danga karwane walon se
Hamko Azadi leni hai

Jo ilm na hasil karne de
jo sidhi raah na chalne de
jo hamko begaana samjhe
iss mulk mein jo na rahne de
bajrangi se aur sanghi se
majboori se aur tangi se
Hamko Azadi leni hai

Jo jang ke haami hote hain
woh log haraami hote hain
jo nafrat ko failaate hain
dil unke juzami hote hain
Qatil se aur gaddaron se
insaaf ke pahredaaron se
Hamko Azadi leni hai
Hamko Azadi leni hai

Inaam Azmi