Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Sunday, February 12, 2017

غزل

ہمارے سینے پہ زخم ایسے لگے ہوئے ہیں
اسی سے لگتا ہے دوست-دشمن ملے ہوئے ہیں

سفر میں عجلت دکھانے والو تمہیں خبر کیا
تمہارے جیسے ہی لوگ پیچھے رکے ہوئے ہیں

اب ان مناظر میں رنگ بھرنے کو کون آئے
مصوروں کے تو ہاتھ کب سے بندھے ہوئے ہیں

پرندے اچھی طرح سے یہ بات جانتے ہیں
شکاری دانا خریدنے کیوں گئے ہوئے ہیں

جو لوگ آکر ہماری بولی لگا رہے ہیں
ہمیں پتہ ہے کسی کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں

کسی آواز دی ہے ٹھہروں میں آ رہا ہوں
ہم اپنی منزل سے دو قدم پہ رکے ہوئے ہیں

ہمارے ابو بہت ہی جلدی گزر گئے تھے
سو ہم سبھی لوگ بچپنے میں بڑے ہوئے

انعام عازمی

غزل

جیسا سوچو ویسا مطلب ہوتا ہے
ہلکی بات کا گہرا مطلب ہوتا ہے

چہرہ پڑھ کر دیکھو گے تو جانو گے
خاموشی کا کیا کیا مطلب ہوتا ہے

لڑکا لڑکی دوست اگر ہیں تو اس کا
کس نے بولا گندا مطلب ہوتا ہے

ہجرت کو تم نقل مکانی کہتے ہو
ہجرت کا  ÷مر جانا مطلب ہوتا ہے

بے شرمی اور آزادی میں فرق ہے دوست
آزادی کا اچھا مطلب ہوتا ہے

چھوٹی سوچ نے مطلب بدلا ہے ورنہ
بیٹی کا بھی بیٹا مطلب ہے

اپنی بات مکمل کرکے جاؤ تم
آدھی بات کا الٹا مطلب ہوتا ہے

شہزادی !! یہ دنیا مطلب والی ہے
سب کا اپنا اپنا مطلب ہوتا ہے

غزل

Wednesday, February 8, 2017

غزل

میں نے اس رستے سے جانا ہوتا ہے
جس پر ہر دم دھوکہ کھانا ہوتا ہے

دوست محبت کرنا بھی آسان نہیں
پتھر کو احساس دلانا ہوتا ہے

تم کیا جانو ہجرت کس کو کہتے ہیں
تم نے تو بس راہ دکھانا ہوتا ہے

چھت آپس میں مل جاتے ہیں,آنگن کو
دیواروں کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے

اس بستی میں رہنے والے جانتے ہیں
طوفانوں کا کیسے آنا ہوتا ہے

تم کیوں ان سے اتنی قربت  رکھتی ہو
جن کو میں نے دشمن مانا ہوتا ہے

ہو سسکتا ہے دشمن تھوڑا بدھو ہو
لیکن ہر ایک دوست سیانا ہوتا ہے

کوزے پر ہر  آن قیامت آتی ہے
تم نے تو بس چاک گھمانا ہوتا ہے

سچ مچ میں سگریٹ نہیں پیتا ہوں دوست
میں نے اس کو صرف ستانا ہوتا ہے

غزل

ایک دو لوگ پیچھے چھوٹ گئے
قافلہ تو کہیں رکا نہیں نا

تم سمندر کو دیکھنے لگے ہو
دوست صحرا میں دل لگا نہیں نا

کیوں پرندے اداس بیٹھے ہیں
ان درختوں نے کچھ کہا نہیں نا

دوست تم یہ بھی شرط ہار گئے
جانے والا تھا جو رکا نہیں نا

میں نے سوچا وہ صرف میرا ہے
میں نے سوچا مگر ہوا نہیں نا

تین اشعار

بن جائے تو ندی میں کنارا بنا رہا ہوں
یعنی تمام عمر تمہارا بنا رہا ہوں

تجھ کو خزاں پسند ہے یا موسم بہار
تو ہی بتا میں کس کا نظارہ بنا رہوں

تونے تو چاند پا لیا اب میں ترے لئے
جگنو بنا رہوں یا ستارہ بنا رہوں

غزل

میں نا سمجھ تھا مگر اب سمجھ میں آگیا ہے
تمہاری بات کا مطلب سمجھ میں آگیا ہے

کسی بھی وقت تمہیں فون کیوں نہیں لگتا
اے میرے دوست مجھے سب سمجھ میں آ گیا ہے

یہ رات شام سے پہلے ہی کیوں چلی آئی
مجھے بھی وقت کا کرتب سمجھ میں آگیا ہے

میں چاہتا ہوں کہ اب فاصلہ بڑھا لیا جائے
ہمارے بیچ ہے کیا جب سمجھ میں آگیا ہے

یہاں پہ کوئی کسی کا کبھی نہیں ہوتا
سبھی کو دیکھ کے یارب سمجھ میں آگیا ہے

انعام

غزل

میں ہو کے ملک کا سلطان چپ کھڑا ہوا ہوں
بنا کے شہر کو ویران چپ کھڑا ہوا ہوں

کبھی یہ شہر مرے قہقہوں سے گونجتا تھا
کسی نے چھین لی مسکان چپ کھڑا ہوا ہوں

جو بولتے ہیں فقط ان کو دیکھتے ہیں آپ
مجھے بھی دیکھئے بھگوان چپ کھڑا ہوا ہوں

وہ کہہ رہا ہے کہ تم پر مجھے یقین نہیں
میں لے کے ہاتھ میں قرآن چپ کھڑا ہوا ہوں

یہ لوگ بولنے والے ہیں سن نہیں سکتے
میں اس لئے بھی مری جان چپ کھڑا ہوا ہوں

انعام

غزل

توڑنا تھا توڑ لیتے پیار سے
پھول کیوں کاٹے گئے تلوار سے

دیکھ کر تم خود ہی اندازہ لگاؤ
حال مت پوچھا کرو بیمار سے

اس لئے میں نے کہانی ختم کی
مسئلہ تھا کچھ ترے کردار سے

میں ندی میں ناؤ لیکر ہوں کھڑا
کاش آ جائے صدا اس پار سے

عرض کرنا چاہتا ہوں حال دل
ڈر ہے لیکن آپ کےانکار سے

غزل

یہ شہر دل نہیں,مگر ٹرین روک دی گئی
اتر جا میرے ہم سفر ٹرین روک دی گئی

میں پٹریوں پہ آگیا تھا جان دینے کیلئے
کسی کی پڑ گئی نظر ٹرین روک دی گئی

سب اپنی اپنی منزلوں کو سوچنے میں محو ہیں
کسی کو یہ نہیں خبر ٹرین روک دی گئی

وہ شخص آ گیا نظر ہمیں سفر کے درمیاں
ہر ایک چین کھینچ کر ٹرین روک دی گئی

پلیٹ فارم پر ابھی یہ بات عام کی گئی
کہ پر خطر ہے رہگزر ٹرین روک دی گئی

تھا خوفناک حادثہ سفر میں پیش آنے کو
مگر صحیح وقت پر ٹرین روک دی گئی

انعام