Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Thursday, December 10, 2015

غزل

تم کیا جانو کیا ہوتا ہے
جب کوئی تنہا ہوتا ہے

کھو جاتی ہے اس میں دنیا
جس کا دل دریا ہوتا ہے

خوابوں کی ہے بات نرالی
جو چاہو ویسا ہوتا ہے

میری باتیں کرتا ہے وہ???
کیا اب بھی ایسا ہوتا ہے

خود میں یوں کھویا رہتا ہوں
جیسے اک بچا ہوتا ہے

میں روشن ہوں غیر کی خاطر
جیسے ایک دیا ہوتا ہے

لگتا ہے وہ بالکل ویسا
جیسا اک سپنا ہوتا ہے

ہر چہرے کے اندر یارو
ایک نیا چہرا ہوتا ہے

جو کرتا ہے سچی باتیں
وہ بالکل اپنا ہوتا ہے

میں نے اکثر دیکھا ہے یہ
جو چاہو الٹا ہوتا ہے

سب کو مر جانا ہے اک دن
ہر وعدہ جھوٹا ہوتا ہے

ناممکن ہو جس کو پانا
وہ کتنا اچھا ہوتا ہے

عشق ہوا ہے پھر سے مجھ کو
دیکھو پھر کیا کیا ہوتا ہے

انعام عازمی

Tuesday, December 8, 2015

غزل

ایک مدت سے ہے یہ دل ناشاد
کوئی آتا رہا ہے اکثر یاد

ایک تعبیر ہو گئی پوری
یعنی اک خواب ہو گیا برباد

اے خدا ہار مان لی میں نے
اب دعا ہے نہ ہے کوئی  فریاد

کوئی ویران کر گیا ایسے
پھر یہ بستی نہیں ہوئی آباد

یہ جو دنیا ہے قید خانہ ہے
جس میں پھرتا ہر کوئی آزاد

عشق ہے درد کی وجہ صاحب
یعنی غم عشق کی ہے اک ایجاد

داستاں ختم ہو گئی,شیریں!!
مر گیا آج آپ کا فرہاد

انعام

Sunday, December 6, 2015

غزل

میرے فون میں اک ایسا نمبر بھی ہے
جس سے پہلے روزانہ
شام کا سورج ڈھلتے ہی کال آتا  تھا
پچھلے چند مہینوں سے
اس نمبر سے ایک بھی کال نہیں آیا
اور اب آئے گا بھی نہیں
میں شام کو اپنے کالج سے
جب لوج میں اپنے آتا ہوں
میں  گھنٹوں اس نمبر کو
یوں ہی دیکھتا رہتا ہوں
شاید مجھکو لگتا ہے
اس نمبر سےشاید پھر
کوئی کال آئیگا
اک آواز سنائی دے گی
بیٹا! بولو کیسے ہو ؟
کوئی دقت ہے بیٹا؟ طبیعت کیسی رہتی ہے؟
کھانا ٹھیک سے کھاتے ہو؟
چھٹی میں گھر آ جانا

لیکن اب اس نمبر سے
کوئی کال نہیں آتا
وہ نمبر "ابو جان" کا ہے
روٹھ کے جو اس دنیا سے
تنہا ہم کو چھوڑ گئے

Saturday, December 5, 2015

غزل

وہ جو اک حقیقت تھا خواب بن گیا ہے کیا
زندگی میں پھر کوئی حادثہ ہوا ہے کیا

شہر کی فضاؤں میں یہ اداسیاں کیسی
اسکی یاد میں ابتک شہر رو رہا ہے کیا

آجکل میں خود سے بھی دور دور رہتا ہوں
زندگی کا ہر قصہ ختم ہو رہا ہے کیا

سارے خواب آنکھوں سے ہو کے آ گئے باہر
کچھ سمجھ نہیں آتا۔جانے ماجرا ہے کیا

اک عجیب  بے چینی میرے دل میں رہتی ہے
وقت کی ہتھیلی پر حادثہ لکھا ہے کیا

شہر میں کہیں سے بھی اب صدا نہیں آتی
میرا چاہنے والا کوچ کر  گیا ہے کیا

آتے جاتے چہروں کو ایسے دیکھتے کیوں ہو
کوئی بے طرح پھر سے یاد آ رہا ہے کیا

کب تلک رہوگے تم انتظار میں اسکے
جا کے اپنی دنیا میں کوئی لوٹتا ہے کیا

کیوں کلام میں تیرے سوز و ساز ہے انعام
درد کی حدوں کو تو پار کر گیا ہے کیا

انعام عازمی

غزل

اب دئے کو بجھا دیجئے
نام لیکر صدا دیجئے

میرے بارے میں ہے جاننا۔؟
خاک لیکر اڑا دیجئے

پہلے میں زندگی سونپ دوں
شوق سے پھر دغا دیجئے

آپ ہم راز ہیں اس لئے
راز سب کو بتا دیجئے

حادثے اب نہیں ہو رہے
پھر سے کوئی دعا دیجئے

میں بچھڑنے کو تیار  ہوں
مجھکو کو خود سے ملا دیجئے

راحت قلب کے واسطے
نقش ماضی مٹا دیجئے

غزل

ٹل گیا ایک حادثہ پھر سے
یعنی کچھ بھی نہیں ہوا پھر سے

شور کرنے لگی ہے خاموشی
کوئی دینے لگا صدا پھر سے

خود سے بیزار ہو گیا ہوں میں
آ گیا کیسا مرحلہ پھر سے

پھر دعا میں اسی کو مانگا ہے
بخش دینا مجھے خدا پھر سے

کوئی امید پھر سے  جاگی ہے
جل رہا ہے بہاں دیا پھر سے

عشق ناکام پھر نہ ہو جائے
کر رہا ہوں میں انتہا  پھر سے

اپنا  قصہ تمام ہونا ہے
آؤ کر لیں کوئی خطا پھر سے

یہ غلط ہے ۔جو تم نے سوچا ہے
میرے بارے میں سوچنا پھر سے

پھر کہانی میں موڑ آیا ہے
کوئی کردار مر گیا پھر سے

بس اسی بات سے ہے اب خطرہ
ہو گئے لوگ با وفا پھر سے

ہو گیا ہے وہ  بانٹ کر رخصت
درد ہی درد ہر جگہ پھر سے

انعام عازمی

Sunday, November 29, 2015

غزل

منا کر شوق سے مجھکو
خفا کر شوق سے مجھکو

محبت زندگی ہے تو
عطا کر شوق سے مجھکو

میں تم پہ قرض ہوں جانی
ادا کر شوق سے مجھ کو

میں تیری دسترس میں ہوں
فنا کر شوق سے مجھ کو

وہ شاید توڑ ڈالیگا
بناکر شوق سے مجھکو

لٹائے جا رہا ہے وہ
کما کر شوق سے مجھکو

وہ مجھ میں رہ رہا ہے اب
ہٹا کر شوق سے مجھ کو

مجھے ہی مانگتا ہے وہ
گنوا کر شوق سے مجھکو

طرحی غزل

اس نے جب چھوڑ دیا مجھکو سسکنے کیلئے
ہے کہانی میں یہی موڑ بچھڑنے کیلئے

تم محبت کی کوئی شمع جلاکر دیکھو
ہم تو پروانے ہیں آ جائینگے جلنے کیلئے

فرقت یار  میں  جو حال ہوا ہے اپنا
اب تو اک رات ہی کافی ہے بکھرنے کیلئے

ایسے حالات میں دشوار ہے جینا بالکل
حادثہ کوئی تو ہو پھر سے سنبھلنے کیلئے

ہم جہاں کے ہیں وہیں ہم کو چلے جانا ہے
زندگی ہم کو عطا کی گئی مرنے کیلئے

سچ بتاؤں تو مجھے ان سے بہت خطرہ ہے
وہ جو آتے ہیں مرے زخم کو بھرنے کیلئے

لرکھڑاتے ہوئے چلنا ہے یہاں کا دستور
حوصلہ چاہئیے اس شہر میں چلنے کیلئے

میں نے امید کی ہر شمع بجھا دی جاناں
دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کیلئے

زندگی نے جو مجھے زخم دیا ہے انعام
موت کافی نہیں اس زخم کو بھرنے کیلئے

Wednesday, November 25, 2015

غزل

میں جب بھی اپنے اندر دیکھتا ہوں
بہت ویران منظر دیکھتا ہوں

مجھے ملتے ہیں بس ٹوٹے ستارے
میں جب اپنا مقدر دیکھتا ہوں

کوئی صدیوں سے مجھ میں چیختا ہے
میں ایسے خواب اکثر دیکھتا ہوں

بسا کرتے تھے جن آنکھوں میں سپنے
میں اب ان میں سمندر دیکھتا ہوں

وہ خود کو دور کو لیتا ہے مجھ سے
اسے میں جب بھی  کو بڑھ کر دیکھتا ہوں

ہوئے سب خواب میرے ریزہ ریزہ
میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں

یہ منظر  تھا کبھی آباد شاید
میں ان میں رنگ بھر کر دیکھتا ہوں

انعام عازمی

Tuesday, November 24, 2015

غزل

ہائے رے یہ کلفت افسردگی
جیسے ہر لمحہ ہو اپنا آخری

میرے ہر سو درد کی دیوار ہے
اور اس پر یورش آزردگی

میں محبت ہوں مجھے معلوم کیا
ہوش کیا ہے اور کیا ہے بے خودی

ہم تو صدیوں سے کسی زنداں میں ہیں
کہہ رہی ہے روزن خود آگہی

شورش دنیا نے پھر طعنہ دیا ٰ
ڈھونڈیے جاکر متاع زندگی

مے کش غم ہوں بتا سکتا ہوں میں
کرب کیا ہے اور کیا ہے بے بسی

ہے یہی رسم فغاں اے ہم نفس

دل اگو ٹوٹے تو کیجے شاعری

انعام عازمی

نظم

نئے زمانے کے آدمی کو
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ نسل آدم کی نسل ہے کیا؟
اگر نہیں ہے
تو پھر یہ انسانی شکل والے
کہاں سے ہیں؟کس کی نسل ہیں یے؟
اگر یہ آدم کی نسل ہے ہیں تو
وہ ساری خصلت
جو ابن آدم میں پائی جاتی تھیں کیوں نہیں ہیں؟
نئے زمانے کے آدمی میں
وفا مروت خلوص اخلاق کچھ نہیں ہے
یہ لوگ جو خود کو ابن آدم سمجھ رہے ہیں
ذرا بتائیں
خدا نے ہم کو زمین پر کس لئے اتارا؟
ذرا بتائیں
خدا نے کیوں زندگی عطا کی؟
خدا نے کیوں اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازا؟
یہ قتل و غارت گری یہ حیوانیت کا بازار
سود خوری شراب نوشی
کا سارا دھندا
ہمارا قائم کیا ہوا ہے
یہ آدمیت کی شان ہے کیا؟
نئے زمانے کے آدمی کو پتہ نہیں ہے
گناہ کیا ہے ثواب کیا ہے
عجیب ہے نا؟

نئے زمانے کے آدمی کو میں
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ نسل آدم کی نسل ہے کیا؟

انعام عازمی

Saturday, November 14, 2015

غزل


عمار اقبال کی زمین پر میری کوشش

دل پرستی سے عشق ہو گیا ہے
یعنی غلطی سے عشق ہو گیا ہے

جب سے دیکھا ہے اسکی آنکھوں کو
مئے پرستی سے عشق ہو گیا ہے

میں مسافر ہوں اس لئے مجھکو
راہ چلتی سے عشق ہو گیا ہے

بس یہی بات ہے اذیت کی
خود پرستی سے عشق ہو گیا ہے

سن مرے خواب والی لڑکی سن
تیرے جیسی سے عشق ہو گیا ہے

ہوں پرانے خیال کا مجھکو
ایسی ویسی سے  عشق ہو گیا ہے

بس مجھے ایک شخص کی خاطر
"ساری بستی سے عشق ہو گیا ہے"

اب کنارے کی آرزو کیسی
مجھکو کشتی سے عشق ہو گیا ہے

دیکھ کر سادگی بھکارن کی
تنگدستی سے عشق ہو گیا ہے

انعام عازمی

Friday, November 13, 2015

غزل

دل بیزار میں کچھ بھی نہیں ہے
مرے سنسار میں کچھ بھی نہیں ہے

یہ کس پاگل نے تم سے کہہ دیا ہے
نگاہ یار میں کچھ بھی نہیں ہے

سنا ہے بک گیا وہ شخص بھی کل
تو اب بازار میں کچھ بھی نہیں ہے

پھر اک بیوہ کی عصمت لٹ گئی ہے
نیا اخبار میں کچھ بھی نہیں ہے

وفا اخلاص قربانی مروت
تری سرکار میں کچھ بھی نہیں ہے

وہیں پہ سر بسجدہ ہو گئے سب
جہاں دربار میں کچھ بھی نہیں ہے

یقیناً مصلحت کوئی تو ہوگی
یہاں بیکار میں کچھ بھی نہیں ہے

انعام عازمی

Wednesday, November 11, 2015

غزل

اچھی باتیں کرتی ہو
بالکل میرے جیسی ہو

میں ترہت کا باشندہ
تم پٹنہ میں رہتی ہو

اپنا مزہب ایک نہیں
پر تم اچھی لگتی ہو

دنیا کا اب کیا ہوگا
تم کیوں سوچا کرتی ہو

جنس پہننا چھوڑ دیا ??
پہنو اچھی لگتی ہو

"تم تو ٹھہرو پردیسی"
ایسے گانے سنتی ہو

دنیا کتنی اچھی ہے???
کس دنیا میں رہتی ہو

ہاں میں تم سے ڈرتا ہوں
کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو

چشمہ والی لڑکی تم
کیوں غصے میں رہتی ہو

میں اک اچھا لڑکا ہوں
مجھ سے سب کہہ سکتی ہو

گرتا تارا دیکھ کے تم
کس کو مانگا کرتی ہو??

کیا تم میری غزلوں کو
شام سویرے پڑھتی ہو

بولو کچھ تو بولو تم
کیوں شرمایا کرتی ہو

مودی اچھے نیتا ہیں??
پاگل کیا کیا بکتی ہو

میں دیوانا لڑکا ہوں
تم اک پاگل لڑکی ہو

دیکھ کے تم کو جیتا ہوں
کیا تم مجھ پہ مرتی ہو??

ہم کو تم سے مطلب ہے
عشق کی ایسی تیسی ہو

جب میں غم میں ہوتا ہوں
کیا تم سچ مچ روتی ہو

دنیا میں لاکھوں غم ہیں
کیا تم بھی غم سہتی ہو

تنہائی کے عالم میں
بولو آہیں بھرتی ہو

مجھکو شب میں نیند نہیں
تم دن میں بھی سوتی ہو

کیا تم اپنی کاپی میں
میری فوٹو رکھتی ہو

سب بیگانے رشتے ہیں
بس تم اپنی لگتی ہو

لوگ محبت کہتے ہیں
اس کو تم کیا کہتی ہو

نظم

اے خدا
تجھ سے کوئی شکایت نہیں
میری قسمت میں جو تھا
وہ سب کچھ ملا
کچھ دعائیں مری
تیرے دربار میں
رد ہوئی ہیں,مگر
مجھکو پورا یقیں ہے
کبھی نہ کبھی
ان دعاؤں کا بھی
اجر مل جائیگا
اے خدا آج تک
میری قسمت مجھے
ایک پل کی خوشی
دے نہ پائی,مگر
میں یہی سوچ کر
صبر کرتا ہوں کہ
ہر گھڑی
اپنے محبوب بندوں کو تو
آزمائش میں رکھتا ہے
تاکہ انہیں
کل قیامت کے دن
انکو جنت میں
اونچی  جگہ دے سکے
اے خدا آج تک
تیری دنیا میں میں
جی رہا ہوں مگر
زندگی کس کو کہتے ہیں
جانا نہیں
میرے معبود میری ہے اک التجا
تو مجھے
زندگی بخش دے

غزل

عجیب بات ہے یہ, میرے دھیان میں بھی نہیں
کہ میرا ذکر مری داستان میں بھی نہیں

طرح طرح کے سوالوں سے دل پریشاں ہے
گلہ تو یہ ہے کہ دل امتحان میں بھی نہیں

ہمارے بیچ ہے صدیوں کا فاصلہ لیکن
یہ بات سچ ہے کوئی درمیان میں بھی نہیں

تمام شہر میں پھیلی ہوئی ہے تاریکی
کوئی چراغ  ہمارے مکان میں بھی نہیں

وہ نام جو کبھی منسوب میرے نام سے تھا
وہ نام اب مرے وہم و گمان میں بھی نہیں

خدا کو ڈھونڈ رہا ہے تو نا خداؤں میں
ترا خدا  تو میاں آسمان میں بھی نہیں

وہ ایک شخص مصیبت میں کام آئے جو
وہ ایک شخص مرے خاندان میں بھی نہیں

انعام عازمی

Sunday, October 25, 2015

غزل

گہرے  تعلقات سے کچھ فائدہ نہیں
ہم کو ہماری ذات سے کچھ فائدہ نہیں

ساری امیدیں ٹوٹ گئیں خواب مر گئے
مولیٰ مجھے حیات سے کچھ فائدہ نہیں

جو بھی ترے قریب تھے سب کوچ کر گئے
اب تیری کائنات سے کچھ فائدہ نہیں

ہے جسکا انتظار وہ آئیگا ہی نہیں
اب دن سے اور رات سے کچھ فائدہ نہیں

خود از گزشتگاں کی کہانی عجیب ہے
ان سارے واقعات سے کچھ فائدہ نہیں

میں نے کبھی نجات کی مانگی نہیں دعا
معلوم ہے نجات سے کچھ فائدہ نہیں

سب لوگ اپنے بارے میں ہیں سوچتے یہاں
یعنی کسی کی بات سے  کچھ فائدہ نہیں

انعام عازمی

Friday, October 2, 2015

غزل

کا بتائیں کہ کیسا حال ہوا
جو حقیقت تھا سب خیال ہوا

دے رہے ہیں ہمیں تسلی سب
بس یہی سوچ کر ملال ہوا

میں جو برباد کر گیا خود کو
دوسروں کیلئے مثال ہوا

قیس مارے گئے محبت میں
اور مرے ساتھ تو کمال ہوا

زندگی روز قتل کرتی رہی
موت آئی تو انتقال ہوا

تم تو تھے ہی نہیں مرے کیسے
قبر میں ببس یہی سوال ہوا

آہ ابو نہیں رہے

ابو آپ سو جائیے رات کے 12 بج چکے ہیں
بیٹا مجھے نیند نہیں آ رہی ہے آپ سو جائیں میں تھوڑی دیر میں سو جاؤنگا
اس رات ابو تھوڑے پریشان دکھ رہے تھے میں نے بارہا پریشانی کی وجہ معلوم کرنی چاہی مگر ابو نے کچھ  نہیں بتایا
رات کے ایک بجتے ہی مجھے نیند آ گئی ..
صبح جب آنکھ کھلی ایک عجیب سا شور سنائی دیا مجھے لگا سانپ نکلا ہوگا لوگ اسے مار رہے ہونگے
مگر دل کو پھر بھی سکون نہیں ملا تو میں چھت سے نیچے اتر کر یہ جاننے چلا آیا آیا آخر اتنا شور کیوں برپا ہے
وہاں کا منظر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گے گھر کے دروازے پر سیکڑوں لوگ جمع تھے میں گھر کے اند داخل ہوا تو دیکھا امی اور کچھ لوگ مل کر ابو کے تلووں کی مالش کر رہے ہیں کچھ ڈاکٹر کو کال کر رہے تھے کچھ امبولنس بلانے کی بات کر رہے میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا آخر میرے ابو کو ہوا  کیا ہے یہ بھیڑ کیوں اکٹھا ہے میں ابو کے سامنے پہنچا ابو مجھے دیکھ کر روئے جا رہے تھے مگر کچھ بول نہیں پا رہے تھے میں بار بار سوال کر رہا تھا ابو کیا ہوا ہے آپ کو بتائیے نا? ایسے نا امید ہوکر کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے? مگر میرے سوالوں کل جواب دینے والا کوئی نہ تھا
مجھے احساس ہو گیا کہ ابو پہ پھر سے پارا لائسس کا اٹیک ہوا ہے
تھوڑی دیر میں امبولنس آئی ہم ابو کو لیکر پٹنہ کیلئے روانہ ہوئے راستے بھر ﷲ سے میں ایک ہی دعا مانگتا یا ﷲ میرے ابو  کا سایا میرے سر پہ سلامت رکھنا
گاڑی ابھی حاجی پور ہی پہنچی تھی کہ ابو کی سانس تھم گئی ایک کلنک پر لوگوں نے گاڑی روک کر ڈاکٹر  سے ابو کا جائزہ لینے کو کہا ڈاکٹر نے ابو کو چیک کرنے کے بعد اپنے کیبن میں خالو ابو کو بلا کر کیا کہا مجھے نہیں معلوم جب وہ باہر نکلے انکی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور میں بارہا یہی سوال کرتا رہا ڈاکٹر نے کیا کہا ? دیکھیے یہ اچھا ڈاکٹر نہیں ہے اسکی باتوں پہ مت آئیے آپ ابو کو لیکر پٹنہ چلیے نا?  میرے سوال پر ہر کوئی مجھے گلے لگا کر رونے لگتا اور میں چیخ چیخ کر کہتا رہا  مجھے ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے مجھے ابو کی ضرورت ہے
سب لوگ پھر سے گاڑی میں بیٹھے مجھے تھوڑا سکون ملا میں اپنے ابو کو اچھے ڈاکٹر سے دکھاؤنگا یہ جھوٹے لوگ لوگ ہیں انکی باتوں میں نہیں آنا مجھے  مگر گاڑی واپس موڑ دی گئی

یہ کیا کر رہے ہیں آپ ?  میں نے کہا نا پٹنہ چلنا ہے وہاں اچھے ڈاکٹر ہیں میں جانتا ہوں

خالو ابو میرے سر پر ہاتھ رکھکر بول پڑے بیٹا ابو نہیں رہے

کیا?

ذہن میں طرح طرح کے سوال پیدا ہونے لگے کبھی میں امی کی طرف دیکھتا جو شروع سے لیکر ابتک خاموش تھیں کبھی ابو کی طرف
سوچ رہا تھا گھر جاکر اپنے چھوٹے بھائی کے سوال کیا جواب دونگا جو محض 7سال کا ہے حامدی کو کیسے بتاؤنگا کہ بھائی ہم یتیم ہوگئے آپی کو کیسے سمجھاؤنگا کہ ہمارے ابو اب نہیں ہیں رہے
ہم سیوان پہنچے جہاں 20 سال سے ابو ایک مدرسے میں شیخ الحدیث تھے اور 20 سال سے مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے
لوگوں نے کہا ہماری خواہش ہے ہم غسل دیکر جنازے کی نماز ادا کر لیں جمعہ سے پہلے ابو کو غسل دیا گیا اور جمعہ کے نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھنے کیلئے لوگ اکٹھا ہونے لگے بھیڑ کو دیکھ کر ہر جگہ چھوٹی نظر آ رہی تھی آخر میں مدارپور کالج کے فیلڈ میں جسے عام طور نیتاؤں کی ریلیوں کیلئے  استعمال کیا جاتا ہے پہلی بار نمازے جنازہ ادا کی گئی جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ شامل تھے
پھر ابو کو لیکر ہم اپنے آبائی وطن پوکھریرا آ گئے یہاں میرے منجھلے بھائی حامدی کے علی گڑھ سے آ جانے پر دوبارہ نمازے جنازہ ادا کی گئ اور سنیچر کے دن نماز عصر کے بعد ابو دفن کئے گئے
ﷲ انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے- آمین

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہوں جیسے میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں ایک خوفناک خواب کبھی تو صبح ہوگی کبھی تو کوئی آئیگا مجھے جگانے

مگر نہیں

مجھے اپنی پوری زندگی اسی خوفناک خواب جو ایک حقیقت ہے کہ سائے تلے گزارنی ہوگی

اب تو ہر رات سوتے وقت ایسا گمان ہوتا ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی.ابو کے جانے کے بعد جو خلا میرے اند پیدا ہوئی ہے اسکا پر ہونا نا ممکن ہے

میرے اندر اداسی گھر کر چکی ہے میں زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں

بس سانس لینے کا نام اگر زندگی ہے تو میں زندہ ہوں ورنہ......

انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں مگر قیامت بس ایک بار آتی ہے اور ہر چیز فنا ہو جاتی ہے تمام خواب آنکھوں میں دفن ہو جاتے ہیں حسرتیں سینے میں دم توڑ دیتی ہیں
انسان کا وجود جل کر راکھ ہو جاتا ہے اور پھر غم کی ایک ایسی بارش ہوتی ہے کہ صفحہ ہستی نام و نشان مٹ جاتا ہے

اور میں مٹ چکا ہوں

Wednesday, September 2, 2015

غزل

درد ہوتا ہے اس قدر مجھ میں
کوئی روتا ہے رات بھر مجھ میں

میں تو ویران ہو گیا لیکن
اب بھی آباد ہے نگر مجھ میں

خوف آتا ہے آئینے سے بھی
یوں سمایا ہے ایک ڈر مجھ میں

سب کو جسکی تلاش ہے وہ شخص
پھر رہا ہے ادھر ادھر مجھ میں

خواہشیں چیخنے لگیں ساری
کوئی ایسے گیا بکھر مجھ میں

بن رہے ہیں سبھی مرے ہمدرد
کون آنے لگا نظر مجھ میں

یوں مجھے ٹھیس لگ گئی خود سے
ہو گئے لوگ دربدر مجھ میں

انعام

Tuesday, September 1, 2015

غزل

پیار اور محبت کے واقعات کے اندر
کچھ نہیں رکھا صاحب التفات کے اندر

آرہی ہے مجھ میں اک چیخ کی صدا کب سے
کون آکے بیٹھا ہے میری ذات کے اندر

میں جو ہوں نہیں ہوں میں جو نہیں ہوں وہ ہوں میں
بات ہے چھپی کتنی ایک بات کے اندر

ختم ہو گئی ہر شے بس نشان باقی ہے
کچھ نہیں بچا یعنی کائنات کے اندر

کیا بتاؤں میں کیسی بے بسی ہے اب لوگوں
اک صدی گزرتی ہے ایک رات کے اندر

غزل

ﺻﺮﻑ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﻻﻣﮑﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺱ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﯿﺪﺍ
ﭘﺮ ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮔﺰﺷﺘﮕﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﯽ
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ
کیا ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﮎ ﻭﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﮔﻤﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ
ﮨﻢ ﻣﯿﺎﮞ ﻋﮩﺪ ﺑﯿﮑﺮﺍﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ

آزادی نظم

ﺁﺅ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺷﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ??
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﻟﻮﭨﻮ
ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﺎ ﮐﺮ ﺩﻭ
ﺭﯾﭗ ﮐﺮﻭ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﻧﻨﮭﮯ ﻣﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﺑﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﮯ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﭼﮭﯿﻨﻮ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﻣﺠﺒﻮﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ
ﻣﻔﻠﺲ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﭼﮭﯿﻨﻮ
ﻻﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻟﮯ ﻟﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭ
ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﮐﺮﻭ
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮٌﺭ ﺭﮐﮫ ﺩﻭ
ﻣﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﻮ ﻣﺎﻧﺲ ﺭﮐﮭﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﭙﺮﮮ ﭘﮩﻨﻮ
ﺟﻨﺴﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﭦ ﺁﻑ ﻓﯿﺸﻦ
ﻟﻮﮒ ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﻤﺠﮭﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺗﮭﺎﻧﮯ ﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﺭﺷﻮﺕ ﺩﻭ
ﻧﯿﺘﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮﻭ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﻭ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭ
ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﺍﮔﺮ ﺁﺋﮯ
ﺑﮯ ﺷﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﻮ
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﯾﻌﻨﯽ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮ ------!!
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ ........
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ " ﺟﺸﻦِ ﺁﺯﺍﺩﯼ " ﮬَﮯ
( انعام عازمی)

غزل

یہ نہ پوچھو کہاں کہاں تم ہو
دیرو کعبہ کے درمیاں تم ہو
اپنے اندر بھی میں نہیں اب تو
میرے اندر بھی مہرباں تم ہو
وہ کہانی جو نا مکمل ہے
اس کے ہر لفظ سے بیاں تم ہو
لوگ کہتے ہیں میں تمہارا ہوں
کیا مری ذات سے عیاں تم ہو
تم مرے ساتھ تو نہیں لیکن
ہم سفر تم ہو رازداں تم ہو
میں ستارہ ہوں تیری جھرمٹ کا
اے مری جان کہکشاں تم ہو
تم ہو تخلیق میریے خوابوں کی
سچ کہوں وہم ہو گماں تم ہو
انعام عازمی

نظم

ﺁﺝ ﮐﻞ ہر گھڑی
ﺳﻮچتا ﮨﻮﮞ ﯾﮩﯽ
" ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ "
ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ
ﺍﭘﻨﺎ ﻃﻠﺒﮕﺎﺭ ﮨﻮ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﮉﮬﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﮟ
ﺑﺎﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ
ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ
ﯾﮏ ﺑﯿﮏ ﻟﻮﮒ ﺳﺐ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ
ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ
ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﯾﮟ
ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ
ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﻣﺼﻠﺤﺖ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﺼﻠﺤﺖ
ﮐﺲ ﻃﺮﺡﭘﯿﺶ ﺁﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﯼ ﮨﻮ
ﮨﻤﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﮩﯽ ﮨﮯ ﺩﻋﺎ
ﻣﺎﻧﮕﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﭘﺮ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﭘﺮ
ﺍﮎ ﻧﻈﺮ
ﺩﯾﮑﮭﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎ
ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﯽ
ﺟﺎﺋﮯﮔﯽ ﺑﮭﯽ
ﻣﺎﻥ ﻟﻮ
ﮔﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﺑﮭﯽ ﮔﺌﯽ
ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎ
ﺷﺮﻑ ﻣﻘﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ
ﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﮔﯽ ﺑﮭﯽ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﺍﻟﻐﺮﺽ
ﮨﺮ ﺟﮕﮧ
ﮨﺮ ﮔﮭﮍﯼ
ﮨﺮ ﻧﺌﮯ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ
ﮨﺮ ﻧﺌﮯ ﻣﻮﮌ ﭘﮧ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﺳﻮچنے ﺳﮯ ﺯﯾﺎﮞ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ
ﺳﻮچنا ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ

انعام عازمی

abbu

Abbu ki yaaad mein

Kya bataein ke kya hua abbu
ho gaya khatm maajra abbu

Aap ab laut kar na aayenge
log kahte hain baraha abbu

Kyun tasawwur karoon ke jina hai
mujhko ab aapke bina abbu

Ammi,babu aur hamdi ki ab
yaad aati nahi hai kya abbbu?

Mujhko jo bhi hai apni zaat se hai
aap se kuchh nahi  gila abbu

Kaise guzregi zindagi meri
Har ghari main hoon sochta abbu

Log mujhko yateem bolenge
Aisa ab waqt hai mera abbu

Ho gayee khatm ab meri duniya
yani kuchh bhi nahi bacha abbu

Kaun bolega ab hamein "beta"
kaun dega hamein dua abbu

Dil dukhaya thha aapka maine
ya hui thhi koi khata abbu

ek bas aapke na hone se
aa gaya kaisa marhala abbu

Kya mere mas'ale ka hal hoga
mujhko kuchh bhi nahi pata abbu

Kal bhi allah rizq deta thha
ab bhi hai woh hi aasra abbu

Jis tarah aap ho gaye rukhsat
aise jata hai koi kya abbu

inaam

غزل

کس طرح ﺑﺘﺎﺅﮞ میں ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺻﺎﺣﺐ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﯿﻦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺻﺎﺣﺐ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ
ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻧﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ

ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﮨﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ
ﺣﺎﺩﺛﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺑﮯ ﻭﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ

ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﮎ ﺻﺪﺍ ﺍﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺐ ﺳﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﺁﺅ ﻧﺎ ﺻﺎﺣﺐ

ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﻨﻮﺍﺅﮞ ﮐﯿﻮﮞ
ﺧﻮﺍﺏ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺻﺎﺣﺐ

ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮح ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮔﺮ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺻﺎﺣﺐ

ﻭﮦ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺪﻋﺎ ﺻﺎﺣﺐ
ﺍﻧﻌﺎﻡ