Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Sunday, July 9, 2017

غزل

गिराने दर्द की दीवार क्यों नही आता
कोई हमारे लिए यार, क्यों नही आता

वो जिसके होने से हर रोज़ ईद होती है
वो मेरे गांव में हर बार क्यों नही आता

ज़माना बांटने वाला है मुझको हिस्सों में
मैं जिसका हक़ हूँ वो हक़दार क्यों नही आता

मैं आधे दाम पे बाज़ार में मुयस्सर हूँ
तो कोई मेरा ख़रीदार क्यों नही आता

वो जिसके जाने से ठहरा है वक़्त सदियो से
बढ़ाने वक़्त की रफ्तार क्यों नही आता

(ट्रेन से)

غزل

ہوں پرائے یا اپنے برے لوگ ہیں
اس زمانے میں سارے برے لوگ ہیں

ہم خدا کا بھی کہنا نہیں مانتے
یار ہم لوگ کتنے برے لوگ ہیں

اب ہوس کو محبت سمجھتے ہیں لوگ
کیا کہوں دوست ایسے برے لوگ ہیں

اب محمد سا کوئی نہیں ہے مگر
اب بھی بو جہل جیسے برے لوگ ہیں

کوئی مزہب برائی سکھاتا نہیں
سارے مزہب میں اچھے برے لوگ ہیں

ہم جو عورت کو عورت سمجھتے نہیں
ہم حقیقت میں سب سے برے لوگ ہیں

غزل

تصورات میں وہ زوم کر رہا تھا مجھے
بہت شدید توجہ کا سامنا تھا مجھے

چمک رہا تھا میں سورج کے مثل اس لئے دوست
کہیں پہ جاکے اندھیرے میں ڈوبنا تھا مجھے

مجھے وہاں سے اداسی بلا رہی تھی آج
جہاں سے شام و سحر کوئی دیکھتا تھا مجھے

پھر اس کو جاکے بتانا پڑا غلط ہے یہ
سمجھنے والے نے کیا کیا سمجھ رکھا تھا مجھے

گزر نہ پایا تھا جو جون ایلیا سے بھی
تمارے بعد وہ لمحہ گزارنہ تھا مجھے

لہو لہان ہوئے جا رہے تھے ہر منظر
کسی نے وقت کے ماتھے پہ یوں لکھا تھا یوں

میں اپنی نیند اگر ٹوٹنے نہیں دیتا
اس ایک خواب سے ہر وقت ٹوٹنا تھا مجھے

غزل

کسی نے جب مجھے صحرا کہا تھا
مری آنکھوں میں دریا آ گیا تھا

زمیں پر بعد میں اترے تھے ہم لوگ
ہمارا وقت پہلے جا چکا تھا

مجھے حل کر رہا تھا اور کوئی
میں اپنی زندگی کا مسئلہ تھا

ہماری سوچ زخمی ہو گئی تھی
اچانک ذہن میں تو آ گیا تھا

دکھایا جا رہا تھا یوں تماشہ
تماشائی تماشہ بن گیا تھا

مجھے ملنا تھا خود سے اس لئے میں
ہمیشہ اپنا رستہ دیکھتا تھا

اسے خاموش رہنا پر رہا ہے
جو لڑکا سب سے زیادہ بولتا تھا

غزل

طرحی غزل  

جو تھی اک شمع روشن, بجھ گئی کیا
اندھیرے کھا گئے سب روشنی کیا

میں خود میں چیختا رہتا ہوں ہر دم
یہی ہوتا رہے گا ہر گھڑی کیا

سمندر کیوں پریشاں ہو رہا ہے
ندی صحرا کے جانب آ گئی کیا

اٹھائے پھر رہے ہیں لاش اپنی
*بھلا ہم کیا ہماری زندگی کیا*

بنے بیٹھے ہیں جب ہم خود کے دشمن
کسی سے اب ہماری دوستی کیا

جو ہم کو آئینہ دکھلا رہے ہیں
انہیں معلوم ہے اپنی کمی کیا

میسر خود کو بھی اب ہم نہیں ہیں
تو آنی چاہیے اس پر ہنسی کیا

خدائے بر تر و  بالا بتانا
محبت ابتدا سے ایسی تھی کیا

یہ جو میں سوچتا رہتا ہوں ہر دم
یہ سب سوچا ہے تم نے بھی کبھی کیا

*انعام عازمی*

غزل

اپنی قسمت کا نہ ٹوٹے کبھی تارا- آمین
یار ہر وقت رہے صرف ہمارا - آمین

ہو شب وصل میسر سبھی دیوانے کو
رات بھر روئے نہ اب ہجر کا مارا- آمین

اب نہ کشتی کوئی طوفان کی ضد میں آئے
ڈوبنے والے کو مل جائے کنارا- آمین

جس کا ہونا ہے مجھے اس کو میسر ہو جاؤں
اب نہ بچھڑے کوئی تم سے بھی تمہارا- آمین

کوئی  پتہ نہ کسی شاخ سے  ٹوٹے یارب
ہو خزاں میں بھی درختوں کا گزارا-آمین

جس طرف دیکھوں مجھے صرف نظر آئے تو
تجھ سے منسوب ہو ہر تیک نظارا-آمین

اب اندھیرے میں نہ بھٹکے کوئی رستہ اپنا
ہو ہوا سارے چراغوں کا سہارا- آمین

نظم

Hindustani Dahshatgardo!!
kaise ho tum?
kuchh to bolo?
meri eid moharram karke,khush ro hoge?
Accha chhoro kuchh mat bolo
lekin,mujhko ye samjhao
Masoomo ka khoon bahakar kya milta hai?
Majbooron ko dil tarpa kar kya milta hai
Khud ko hindu kahne walo
Hindu kya aise hote hain???
Hindutva ki aar mein jo sab tum karte ho
usse ye sabit hota h
Khooni ho tum
atanki ho
Hindustani dahshatgardo
hosh mein aao
iss mitti ki laaj rakho tum
gandhi ka samman karo tum
Veer bhagat ki qurabni ko,Aise ruswa mat hone do
Warna aisa din aayega
apno ki laashon ko thhaame
Chikhoge aur chillaoge
aur harpal afsos karoge

hindustani dahshat gardo
logon ko apnana sikho
warna tanha rah jaoge
aur be maut hi mar jaoge

نظم

پیارے ابو
سوچ رہا تھا
عید کے دن اک نظم لکھوں گا
اس میں ساری بات لکھوں گا
کیسے کیسے یاد کیا ہے آپ کو میں نے
آپ کے زندہ نہ ہونے پر کب کب میں گھنٹوں رویا ہوں
کیسے میرے دن گزرے ہیں
کیسے میری رات کٹی ہے
کب کب یہ احساس ہوا کہ باپ کا سایا اٹھ جانے سے
اپنوں میں بھی بیگانہ ہونا پڑتا ہے
کیسے زندہ ہوکر ہر لمحہ مرنا پڑتا ہے
لیکن ابو
ڈر لگتا ہے
میری نظم کا کوئی مصرع چیخ اٹھا تو
مجھ پر جان لٹانے والے
کیا سوچیں گے
کیا سمجھیں گے
پیارے ابو
چھوٹی موٹی کچھ باتیں ہیں
اور یہ سب تو ہوتی رہتی ہیں
ہم سب خوش ہیں

ایک کمی ہے
آپ نہیں ہیں

غزل

منظر کوئی بھی دل کو لبھا کیوں نہیں رہا
تیرا خیال ذہن سے جا کیوں نہیں رہا

کب تک تو شہر خواب میں ٹھہرا رہے گا دوست
تعبیر بن کے دہر میں آ کیوں نہیں رہا

تجھ میں اگر نہیں ہوں تو پھر میں کہاں گیا
تو مجھ سے میرا حال بتا کیوں نہیں رہا

تاریکیوں نے شہر دبوچہ ہوا ہے تو
کوئی یہاں چراغ جلا کیوں نہیں رہا

رونق تمہارے دم سے اگر تھی ہر ایک سمت
تجھ سے بحال شہر وفا کیوں نہیں رہا

میں ہو کے جب نہیں ہوں تو منظر نگار تو
منظر سے میرا نقش مٹا کیوں نہیں رہا

کب تک ہمارے بیچ رہیں گی یہ دوریاں
تو آ نہیں رہا تو بلا کیوں نہیں رہا