Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Sunday, November 29, 2015

غزل

منا کر شوق سے مجھکو
خفا کر شوق سے مجھکو

محبت زندگی ہے تو
عطا کر شوق سے مجھکو

میں تم پہ قرض ہوں جانی
ادا کر شوق سے مجھ کو

میں تیری دسترس میں ہوں
فنا کر شوق سے مجھ کو

وہ شاید توڑ ڈالیگا
بناکر شوق سے مجھکو

لٹائے جا رہا ہے وہ
کما کر شوق سے مجھکو

وہ مجھ میں رہ رہا ہے اب
ہٹا کر شوق سے مجھ کو

مجھے ہی مانگتا ہے وہ
گنوا کر شوق سے مجھکو

طرحی غزل

اس نے جب چھوڑ دیا مجھکو سسکنے کیلئے
ہے کہانی میں یہی موڑ بچھڑنے کیلئے

تم محبت کی کوئی شمع جلاکر دیکھو
ہم تو پروانے ہیں آ جائینگے جلنے کیلئے

فرقت یار  میں  جو حال ہوا ہے اپنا
اب تو اک رات ہی کافی ہے بکھرنے کیلئے

ایسے حالات میں دشوار ہے جینا بالکل
حادثہ کوئی تو ہو پھر سے سنبھلنے کیلئے

ہم جہاں کے ہیں وہیں ہم کو چلے جانا ہے
زندگی ہم کو عطا کی گئی مرنے کیلئے

سچ بتاؤں تو مجھے ان سے بہت خطرہ ہے
وہ جو آتے ہیں مرے زخم کو بھرنے کیلئے

لرکھڑاتے ہوئے چلنا ہے یہاں کا دستور
حوصلہ چاہئیے اس شہر میں چلنے کیلئے

میں نے امید کی ہر شمع بجھا دی جاناں
دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کیلئے

زندگی نے جو مجھے زخم دیا ہے انعام
موت کافی نہیں اس زخم کو بھرنے کیلئے

Wednesday, November 25, 2015

غزل

میں جب بھی اپنے اندر دیکھتا ہوں
بہت ویران منظر دیکھتا ہوں

مجھے ملتے ہیں بس ٹوٹے ستارے
میں جب اپنا مقدر دیکھتا ہوں

کوئی صدیوں سے مجھ میں چیختا ہے
میں ایسے خواب اکثر دیکھتا ہوں

بسا کرتے تھے جن آنکھوں میں سپنے
میں اب ان میں سمندر دیکھتا ہوں

وہ خود کو دور کو لیتا ہے مجھ سے
اسے میں جب بھی  کو بڑھ کر دیکھتا ہوں

ہوئے سب خواب میرے ریزہ ریزہ
میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں

یہ منظر  تھا کبھی آباد شاید
میں ان میں رنگ بھر کر دیکھتا ہوں

انعام عازمی

Tuesday, November 24, 2015

غزل

ہائے رے یہ کلفت افسردگی
جیسے ہر لمحہ ہو اپنا آخری

میرے ہر سو درد کی دیوار ہے
اور اس پر یورش آزردگی

میں محبت ہوں مجھے معلوم کیا
ہوش کیا ہے اور کیا ہے بے خودی

ہم تو صدیوں سے کسی زنداں میں ہیں
کہہ رہی ہے روزن خود آگہی

شورش دنیا نے پھر طعنہ دیا ٰ
ڈھونڈیے جاکر متاع زندگی

مے کش غم ہوں بتا سکتا ہوں میں
کرب کیا ہے اور کیا ہے بے بسی

ہے یہی رسم فغاں اے ہم نفس

دل اگو ٹوٹے تو کیجے شاعری

انعام عازمی

نظم

نئے زمانے کے آدمی کو
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ نسل آدم کی نسل ہے کیا؟
اگر نہیں ہے
تو پھر یہ انسانی شکل والے
کہاں سے ہیں؟کس کی نسل ہیں یے؟
اگر یہ آدم کی نسل ہے ہیں تو
وہ ساری خصلت
جو ابن آدم میں پائی جاتی تھیں کیوں نہیں ہیں؟
نئے زمانے کے آدمی میں
وفا مروت خلوص اخلاق کچھ نہیں ہے
یہ لوگ جو خود کو ابن آدم سمجھ رہے ہیں
ذرا بتائیں
خدا نے ہم کو زمین پر کس لئے اتارا؟
ذرا بتائیں
خدا نے کیوں زندگی عطا کی؟
خدا نے کیوں اپنی رحمتوں سے ہمیں نوازا؟
یہ قتل و غارت گری یہ حیوانیت کا بازار
سود خوری شراب نوشی
کا سارا دھندا
ہمارا قائم کیا ہوا ہے
یہ آدمیت کی شان ہے کیا؟
نئے زمانے کے آدمی کو پتہ نہیں ہے
گناہ کیا ہے ثواب کیا ہے
عجیب ہے نا؟

نئے زمانے کے آدمی کو میں
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ نسل آدم کی نسل ہے کیا؟

انعام عازمی

Saturday, November 14, 2015

غزل


عمار اقبال کی زمین پر میری کوشش

دل پرستی سے عشق ہو گیا ہے
یعنی غلطی سے عشق ہو گیا ہے

جب سے دیکھا ہے اسکی آنکھوں کو
مئے پرستی سے عشق ہو گیا ہے

میں مسافر ہوں اس لئے مجھکو
راہ چلتی سے عشق ہو گیا ہے

بس یہی بات ہے اذیت کی
خود پرستی سے عشق ہو گیا ہے

سن مرے خواب والی لڑکی سن
تیرے جیسی سے عشق ہو گیا ہے

ہوں پرانے خیال کا مجھکو
ایسی ویسی سے  عشق ہو گیا ہے

بس مجھے ایک شخص کی خاطر
"ساری بستی سے عشق ہو گیا ہے"

اب کنارے کی آرزو کیسی
مجھکو کشتی سے عشق ہو گیا ہے

دیکھ کر سادگی بھکارن کی
تنگدستی سے عشق ہو گیا ہے

انعام عازمی

Friday, November 13, 2015

غزل

دل بیزار میں کچھ بھی نہیں ہے
مرے سنسار میں کچھ بھی نہیں ہے

یہ کس پاگل نے تم سے کہہ دیا ہے
نگاہ یار میں کچھ بھی نہیں ہے

سنا ہے بک گیا وہ شخص بھی کل
تو اب بازار میں کچھ بھی نہیں ہے

پھر اک بیوہ کی عصمت لٹ گئی ہے
نیا اخبار میں کچھ بھی نہیں ہے

وفا اخلاص قربانی مروت
تری سرکار میں کچھ بھی نہیں ہے

وہیں پہ سر بسجدہ ہو گئے سب
جہاں دربار میں کچھ بھی نہیں ہے

یقیناً مصلحت کوئی تو ہوگی
یہاں بیکار میں کچھ بھی نہیں ہے

انعام عازمی

Wednesday, November 11, 2015

غزل

اچھی باتیں کرتی ہو
بالکل میرے جیسی ہو

میں ترہت کا باشندہ
تم پٹنہ میں رہتی ہو

اپنا مزہب ایک نہیں
پر تم اچھی لگتی ہو

دنیا کا اب کیا ہوگا
تم کیوں سوچا کرتی ہو

جنس پہننا چھوڑ دیا ??
پہنو اچھی لگتی ہو

"تم تو ٹھہرو پردیسی"
ایسے گانے سنتی ہو

دنیا کتنی اچھی ہے???
کس دنیا میں رہتی ہو

ہاں میں تم سے ڈرتا ہوں
کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو

چشمہ والی لڑکی تم
کیوں غصے میں رہتی ہو

میں اک اچھا لڑکا ہوں
مجھ سے سب کہہ سکتی ہو

گرتا تارا دیکھ کے تم
کس کو مانگا کرتی ہو??

کیا تم میری غزلوں کو
شام سویرے پڑھتی ہو

بولو کچھ تو بولو تم
کیوں شرمایا کرتی ہو

مودی اچھے نیتا ہیں??
پاگل کیا کیا بکتی ہو

میں دیوانا لڑکا ہوں
تم اک پاگل لڑکی ہو

دیکھ کے تم کو جیتا ہوں
کیا تم مجھ پہ مرتی ہو??

ہم کو تم سے مطلب ہے
عشق کی ایسی تیسی ہو

جب میں غم میں ہوتا ہوں
کیا تم سچ مچ روتی ہو

دنیا میں لاکھوں غم ہیں
کیا تم بھی غم سہتی ہو

تنہائی کے عالم میں
بولو آہیں بھرتی ہو

مجھکو شب میں نیند نہیں
تم دن میں بھی سوتی ہو

کیا تم اپنی کاپی میں
میری فوٹو رکھتی ہو

سب بیگانے رشتے ہیں
بس تم اپنی لگتی ہو

لوگ محبت کہتے ہیں
اس کو تم کیا کہتی ہو

نظم

اے خدا
تجھ سے کوئی شکایت نہیں
میری قسمت میں جو تھا
وہ سب کچھ ملا
کچھ دعائیں مری
تیرے دربار میں
رد ہوئی ہیں,مگر
مجھکو پورا یقیں ہے
کبھی نہ کبھی
ان دعاؤں کا بھی
اجر مل جائیگا
اے خدا آج تک
میری قسمت مجھے
ایک پل کی خوشی
دے نہ پائی,مگر
میں یہی سوچ کر
صبر کرتا ہوں کہ
ہر گھڑی
اپنے محبوب بندوں کو تو
آزمائش میں رکھتا ہے
تاکہ انہیں
کل قیامت کے دن
انکو جنت میں
اونچی  جگہ دے سکے
اے خدا آج تک
تیری دنیا میں میں
جی رہا ہوں مگر
زندگی کس کو کہتے ہیں
جانا نہیں
میرے معبود میری ہے اک التجا
تو مجھے
زندگی بخش دے

غزل

عجیب بات ہے یہ, میرے دھیان میں بھی نہیں
کہ میرا ذکر مری داستان میں بھی نہیں

طرح طرح کے سوالوں سے دل پریشاں ہے
گلہ تو یہ ہے کہ دل امتحان میں بھی نہیں

ہمارے بیچ ہے صدیوں کا فاصلہ لیکن
یہ بات سچ ہے کوئی درمیان میں بھی نہیں

تمام شہر میں پھیلی ہوئی ہے تاریکی
کوئی چراغ  ہمارے مکان میں بھی نہیں

وہ نام جو کبھی منسوب میرے نام سے تھا
وہ نام اب مرے وہم و گمان میں بھی نہیں

خدا کو ڈھونڈ رہا ہے تو نا خداؤں میں
ترا خدا  تو میاں آسمان میں بھی نہیں

وہ ایک شخص مصیبت میں کام آئے جو
وہ ایک شخص مرے خاندان میں بھی نہیں

انعام عازمی