Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, November 26, 2016

غزل

جو چلا آتا ہے خوابوں کی طرفداری کو
اس نے دیکھا ہی نہیں عالم بیزاری کو

پیرہن چاک نہ ہو جائے مرے خوابوں کا
کوئی تبدیل کرے رسم عزاداری کو

چارہ گر جب تجھے احساس نہیں ہے تو پھر
کون سمجھے بھلا بیمار کی بیماری کو

میں نے سوچا تھا جو بکنے سے بچا لیں گے مجھے
دوڑ کر آئے  وہی میری خریداری کو

عالم خواب میں ہے جس کی حکومت یارو
وہ سمجھتا ہے بغاوت مری بیداری کو

دل کے صحرا کو سمندر سے بچا لے مولیٰ
اس قدر سہل نہ کر تو مری دشواری کو

کتنے بھولے ہیں تری بزم میں بیٹھے ہوئے لوگ
سچ سمجھتے ہیں سبھی تیری اداکاری کو

غزل

اے محبت تو مجھے درد جدائی نہیں دے
اپنے زندان میں رکھ مجھ کو رہائی نہیں دے

میں اگر دیکھنا چاہوں بھی تمارے سوا کچھ
بس اندھیرا ہو مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے

یوں نہ ہو عشق کا دستور معطل ہو جائے
میرے محبوب مرے حق میں گواہی نہیں دے

لب اگر چاہیں غم عشق بیاں کرنے کو
شور اتنا ہو مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے

دل کو  آرام کسی طور نہیں ملنا ہے
درد بڑھنے دے مرے دوست دوائی نہیں دے

چل تو سکتا ہوں ترے ساتھ مگر ڈر ہے یہی
یہ سفر پھر سے مجھے آبلہ پائی نہیں دے

غزل

ہم درختوں کو اگر جڑ سے گرانے لگ  جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم سفر تو ہی بتا کیسا لگے گا تجھ کو
ہم بچھڑنے پہ اگر جشن مانے لگ جائیں

یہ بھی ہو سکتا ہے چپ چاپ تماشہ دیکھیں
یا سر بزم جنوں رقص دکھانے لگ جائیں

راہ لے ہمیں چھوڑ دے اے مست خرام
یوں نہ ہو ہم تجھے صحرا میں پھرانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں تجھ کو
یہ بھی ممکن ہے تجھے دل میں بسانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کہ خاموشی زباں بن جائے
یہ بھی ممکن ہے ہم شور مچانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کہ ہم تجھ کو گوارا نہ کریں
یہ بھی ممکن ہوں ترا ناز اٹھانے لگ جائیں

یہ بھی ہو سکتا ہے ہم تیری کہانی سن لیں
یہ بھی ممکن ہے ہے تمہیں شعر سنانے لگ جائیں

غزل

لایے تھے عشق پر ہم  ایمان اس گلی میں
یعنی کئے تھے اپنا نقصان اس گلی میں

جینا نہیں ہے یارو آسان اس گلی میں
ہوتی ہے غم کی بارش ہر آن اس گلی میں

ہم اس گلی کے بارے میں کیا بتائیں تم کو
پھرتے ہیں لیکے کاسہ سلطان اس گلی میں

یہ سوچ کر پجارن بیٹھی ہوئی ہے کب سے
مل جائیں گے کسی دن بھگوان اس گلی میں

تاثیر روح میں بھی پھیلی ہوئی ہے یارو
کھایا تھا اس کے ہاتھوں اک پان اس گلی میں

واقف نہیں ہے کوئی اس رمز سے یہاں پہ
ہم نے کیا ہے خود کو قربان اس گلی میں

غالب وہیں محبت سے آشنا ہوئے تھے
لکھا تھا میر نے بھی دیوان اس گلی میں

آوارگی مقدر شاید نہیں تھی پہلے
ہم کو ملی ہے ساری پہچان اس گلی میں

روشن تھے جو ابد سے سارے چراغ بجھ گئے
آیا ہے جانے کیسا طوفان اس گلی میں

اے دوست خامشی کا ہے اب وہاں بسیرا
رہتا نہیں ہے کوئی انسان اس گلی میں

غزل

میرے سینے میں گھٹن چھوڑ گیا
پھر کوئی مجھ میں چبھن چھوڑ گیا

تھا درختوں کو بھروسہ جس پر
وہ پرندہ بھی چمن چھوڑ گیا

نامہ بر سوچ کہ کیوں کر کوئی
سانس رہتے ہی بدن چھوڑ گیا

اس کی باتوں میں چلا آیا میں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ گیا

میں نے بس یونہی کہا تھا جاؤ
وہ مجھے واقعتاً چھوڑ گیا

غزل

تجھ سے اب تیرے طرفدار لڑائی کریں گے
اے محبت ترے بیمار لڑائی کریں گے

بیچنے والا ترا کہہ کے مجھے بیچے گا
اور آپس میں خریدار لڑائی کریں گے

سارے معصوم صفت جنگ میں مر جائیں گے
جب بھی دو قوم کے سردار لڑائی کریں گے

جاہلو!! منبرو محراب سنبھالو جاکر
شیخ اب بر سر بازار لڑائی کریں گے

کوئی الزام نہیں آئے گا سورج پہ کبھی
اب تو سائے پس دیوار لڑائی کریں گے

آج کی رات اگر ابر علم چھٹ جائے
دیکھنا چاند سے غمخوار لڑائی کریں گے

تونے کس خاک سے ایجاد کیا ہے ان کو
کوزہ گر تجھ سے عزادار لڑائی کریں گے

تو ہمیں بانٹ کے اک روز چلا جائے گا
اور ہم خود سے لگاتار لڑائی کریں گے

Thursday, November 17, 2016

نظم

خدارا!!!

زندگی کی قید سے مجھکو رہائی دے

مری آنکھوں کے سارے خواب
پلکوں سے  اتر کر  درد کے صحرا میں جا پہنچے

مرے  دل کے نہاں خانے میں 
ساری حسرتوں نے خودکشی کرلی

وہ سارے لوگ جو اپنائیت کا ڈھونگ رچتے تھے

مرے جزبوں کا استحصال کرتے تھے

مرے چاروں طرف موجود ہیں اب بھی

مگر اب اپنے اصلی پیرہن میں ہیں

انا کی جنگ میں
دل کے سبھی رشتوں نے اپنی جان دے دی
زخم اب ناسور بن گئے ہیں

کسی بے نام منزل کی تمنا میں
میں کب تک درد کے صحراؤں میں پھرتا رہوں,انجان رستے پر چلوں

میں کب تک اپنی بکھری  ہستی کو سمیٹوں
خواہشوں کے قبر پر دن رات یونہی فاتحہ پڑھتا رہوں

مجھے جینے کی خواہش تھی
مگر اب زندگی کوہ گراں ہے

مرے معبود اب مجھکو رہائی دے

مجھے آزاد کردے زندگی کی قید سے مولیٰ

انعام عازمی

4 شعر

نہ جانے کون سا قصہ سنا رہا تھا مجھے
وہ ہنس رہا تھا مگر اس کی آنکھ بھر چکی تھی

میں تجھ سے کیسے بتاؤں کہ عمر کیسے کٹی
میں جی رہا تھا مگر زندگی گزر چکی تھی

اے میرے دوست مرے ٹوٹنے بکھرنے کا
قصور وار فقط دل تھا,عقل مر چکی تھی

میں کیسے دل کو بچاتا تباہ ہونے سے
زمین دل پہ وہ دلکش پری اتر چکی تھی

غزل

میں جسم ہوں تو ہے جان پیا
ہے تجھ پہ مرا ایمان پیا

تو میری خاطر اترا ہے
اس دنیا میں,یہ مان پیا

تو سوہنا ہے من موہنا ہے
سب کچھ تجھ پر قربان پیا

آ عشق کا بادل برسادے
میں بستی ہوں ویران, پیا

تو رستہ ہے تو منزل ہے
تو ہے میری پہچان پیا

دل دید کو تیری ترسے ہے
ہو میری اور بھی دھیان پیا

میں عشق کی مندر کا سادھو
تو ہے میرا بھگوان پیا

انعام عازمی

غزل

تمام عمر جسے چیخ کر پکارا گیا
زمین دل پہ وہ اب تک نہیں اتارا گیا

کہیں پہ درد کا صحرا کہیں پہ غم پہاڑ
عیجب راہوں سے ہر دم مجھے گزارا گیا

ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹوٹنے لگا میں
نہ جانے کیسے مری خاک کو سنوارا گیا

خدا نے میرے مقدر میں جانے کیا لکھا تھا
صلیب درد پہ ہر بار مجھکو وارا گیا

عجیب موڑ پہ دریا نے لوٹ لی کشتی
مرے گمان سے آگے تلک کنارا گیا

غزل

تمہیں یہ کس نے کہا ہم شراب پی رہے تھے
ہمارے دل کے سبھی غم شراب پی رہے تھے

عجیب بات تھی جو لوگ پی نہ سکتے تھے
تمہارے ہجر میں پیہم شراب پی رہے تھے

خدائے جبر نے ایسی سزا سنائی تھی
ہم ایک موڑ پہ باہم شراب پی رہے تھے

تمام عمر مجھے درد نے رلایا تھا
ملا نہ زخم کو مرہم شراب پی رہے تھے

کسی نے توڑ دیا تھا گمان کا مندر
تھا احتجاج کا موسم شراب پی رہے تھے

تمہارا ہجر مناے کی آرزو تھی. سو ہم
تمہاری یاد میں ہر دم شراب پی رہے تھے

میں جانتا ہوں کہ پینا حرام ہے لیکن
تھے اپنی ذات سے برہم شراب پی رہے تھے

انعام عازمی

نعت شریف

مجھ پہ گر حرف محبت کبھی نازل ہو حضور
آپ کی ذات کا دیوانہ مرا دل ہو حضور

میں پکاروں تو مجھے آکے بچا لینا آپ
جب بھی کشتی مری طوفاں کے مقابل ہو حضور

اپنی پلکوں سے غبار رہ طیبہ چوموں
آپ کا شہر مری آخری منزل ہو حضور

ہے یہی آخری خواہش مری چشم تر میں
آپ آجائیں اگر آپ کے قابل ہو حضور

دل کی خواہش ہے زمانے سے رہائ لیکر
آپ کی قید میں یہ طائر بسمل ہو حضور

جب مجھے آپ کی امت میں اتارا گیا ہے
حشر کے روز بھلا کیوں کوئی مشکل ہو حضور

غزل

سورج    بنائیے   نہ ستارا   بنائیے
جو دل کو بھا سکے وہی چہرہ بنائیے

ہاں میں تمام عمر اندھیرا بنا رہا
اب آپ مجھ کو چھو کے سویرا بنائیے

میں دل لگی کا آپ کو پھر سے ثبوت دوں
یعنی پھر آپ اس کا تماشہ بنائیے

کیوں تشنگی سے آپ گلہ کر رہے ہیں اب
کس نے کہا تھا آپ کو صحرا بنائیے

بے کار اپنے وقت کو ضائع نہ کیجئے
منزل اگر نہ بن سکے رستہ بنائیے

کب اتاریے گا اداسی کے نقش کو
بس کیجئے حضور کچھ اچھا بنائیے

سب کر رہے ہیں شاعری, انعام اس لئے
اپنا الگ ہی اک لب و لہجہ بنائیے

نظم

رات کے پونے تین بجے ہیں
سوچ رہا ہوں
پیارے ابو آپ جو ہوتے
مجھ سے کہتے
"بیٹا سوجا__.صبح سویرے اٹھنا بھی ہے
کالج بھی جانا ہے تم کو"
لیکن اب
آپ نہیں ہیں
یعنی میرا کوئی نہیں ہے
اب میں پوری رات یونہی جاگا کرتا ہوں
تنہائی سے دیر تلک باتیں کرتا ہوں
دل کو بہلانے کی خاطر سگریٹ بھی لیتا ہوں
لیکن ابو!!
دل بہلانا مشکل ہے
اپنی ذات میں واپس آنا مشکل ہے
پیارے ابو!!
اک لڑکی ہے
نام نہیں لوں گا اس کا
نام سے آخر کیا لینا ہے
اچھی ہے....بلکہ سب سے اچھی ہے
رات کے خاموشی میں مجھ سے باتیں کرتی رہتی ہے
میں ہنستا ہوں تو ہنستی ہے
میں روتا ہوں تو روتی ہے
پاگل ہے...بالکل پاگل ہے
میرے غم کو بھی اپنا غم کہتی ہے
ابو!!
میں اس کو کیسے سمجھاؤں
میں تاریکی کا حصہ ہوں
غم مجھ پر نازل ہوتے ہیں
میری ذات کے اندر کا خالی پن اس کی جان بھی لے سکتا ہے
درد کی  ٹوٹی کرچیاں اس کو چبھ سکتی ہیں
مجھ کو اس دنیا سے جانے کی جلدی
اور یہ پاگل روک رہی ہے
خود سے اپنے قسمت کے پنوں پر غم کی ایک کہانی لکھنے کو بیٹھی ہے
مر سکتی ہے  ....بلکہ مر جائے گی
پاگل لڑکی مجھ کو پاکر

غزل

*جو روشنی کا یہاں اتنظام کرتے ہیں*
*اندھیرے جھک کے انہیں کو سلام کرتے ہیں*

*رسول عشق پہ ایمان ہم نے لایا ہے*
*سو دشمنوں کا بھی ہم احترام کرتے ہیں*

*جو اسم و جسم کو باہم نبھا نہیں سکتے*
*وہ لوگ عشق میں بیکار کام کرتے ہیں*

*جہاں خیال کا دریا بھی سوکھ جاتا ہے*
*ہم اہل فکر وہیں صبح و شام کرتے ہیں*

*ہمارے خواب کی نسبت تمہاری خاک سے ہے*
*سو زندگی بھی تمہارے ہی نام کرتے ہیں*

نظم

*آخری نظم*

ملامت گر!!
بہت مایوس بیٹھے ہو
ہوا کیا ہے
مربی!!
میں  کسی گمنام منزل کا مسافر تھا
سدا انجان رستوں پہ بھٹکتا تھا
انہیں انجان رستوں پر مجھے غالب ملے...حسرت ملے...ساحر ملے
جون اور ناصر نے سمجھایا
کہ میں یعنی ملامت گر
ادب کے آنے والے دور کا تنہا  ستارا ہوں
مجھے ان کا ادھورا کام کرنا ہے
پرندوں کو درختوں سے ملانا ہے
مجھے دریا سے جاکر دل لگانا ہے
سبھی دیواریں مجھکو توڑنی ہیں اور نیا رستہ بنانا ہے
مجھے صحراؤں کے دل میں اترنا ہے
سو آدم زاد یعنی جون نے مجھ کو نئے  رستے پہ لاکر رکھ دیا
اور میں
نئی منزل کی جانب بارہا یہ سوچ کر بڑھتا رہا
مجھ کو ادھورا کام کرنا ہے
مربی سن!!
ادب کی سرزمیں پہ میں نے جب پہلا قدم رکھا
وہاں موجود لوگوں نے مجھے دل سے لگایا
اپنی پلکوں پر بٹھایا اور محبت دی

ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے
کہ میں یعنی ملامت گر
اداسی کے سبھی منظر کو لفظی پیرہن دینے لگا
جو اپنی ذات میں ٹوٹے ہوئے تھے ان کا نوحہ بھی لکھا
ادب کے نام پر عریانیت پھیلا رہے تھے جو
انہیں ٹوکا
سدا بے بحر مصرع کو ترنم میں سجا کر گا رہے تھے
جو انہیں ٹوکا
کسی کی آنکھ تارا بنا  اور میں کسی روح کو چبھنے لگا
سو اک دن علمی بونوں نے
ادب کی بزم میں لاکر
مجھے
یعنی ملامت گر کو سمجھایا

میاں تعظیم کر ان کی
جو نثری نظم لکھ کر خود کو شاعر مانتے ہیں
ادب کی محفلوں میں جو اداکاری دکھاتے ہیں
جو حوا کو سر بازار لانا چاہتے ہییں

مربی!! آج میں
یعنی ملامت گر
ملامت بھیجتا ہوں اور یہ اقرار کرتا ہوں
ادب کی یہ نئی دنیا مرے لائق نہیں ہے
میں کسی گمنام منزل کی تمنا میں کسی انجان رستے پر بھٹکنا چاہتا ہوں پھر

انعام

غزل

تجھ سے اب تیرے طرفدار لڑائی کریں گے
اے محبت ترے بیمار لڑائی کریں گے

بیچنے والا ترا کہہ کے مجھے بیچے گا
اور آپس میں خریدار لڑائی کریں گے

سارے معصوم صفت جنگ میں مر جائیں گے
جب بھی دو قوم کے سردار لڑائی کریں گے

جاہلو!! منبرو محراب سنبھالو جاکر
شیخ اب بر سر بازار لڑائی کریں گے

کوئی الزام نہیں آئے گا سورج پہ کبھی
اب تو سائے پس دیوار لڑائی کریں گے

آج کی رات اگر ابر الم چھٹ جائے
دیکھنا چاند سے غمخوار لڑائی کریں گے

تونے کس خاک سے ایجاد کیا ہے ان کو
کوزہ گر تجھ سے عزادار لڑائی کریں گے

وہ ہمیں بانٹ کے اک روز چلا جائے گا
اور ہم خود سے لگاتار لڑائی کریں گے

غزل

*غزل*

در امید  مقفل نہیں ہوا اب تک
میں تیرے ہجر میں پاگل نہیں ہوا اب تک

تمام عمر خوشی ساتھ دے نہیں پائی
نزول غم بھی مسلسل نہیں ہوا اب تک

ترے بغیر جو اک مسئلہ بنا ہوا تھا
تو مل گیا  بھی تو وہ حل نہیں ہوا اب تک

میں اس کو بھول چکا ہوں,عجیب بات ہے یہ
جو چہرہ آنکھ سے اوجھل نہیں ہوا اب تک

تغیرات نے دستور سب بدل ڈالے
اصول عشق معطل نہیں ہوا اب تک

نہ جانے کون مصور بنا رہا ہے مجھے
مرا وجود مکمل نہیں ہوا اب تک

یہ تیرے عشق کی توہین ہے پری زادی
میں تیری یاد میں بیکل نہیں ہوا اب تک

انعام عازمی

Thursday, October 27, 2016

غزل

غزل

ہم نے پلکوں پہ کبھی غم کی نمائش نہیں کی
درد میں ڈوبے رہے ہجر کی خواہش نہیں کی

دل کی بستی میں رہا غم کا بسیرا ہر دم
میرے قسمت کے ستاروں نے بھی گردش نہیں کی

خواب سب ڈوب گئے درد کی برساتوں میں
کون کہتا ہے مری آنکھوں نے بارش نہیں کی

مجھ سے کہتا تھا مرا ساتھ نبھائے گا وہ
ٹوٹ جانے پہ بھی کم بخت نے پرشش نہیں کی

غم کے صحرا میں بھٹکتے رہے تا عمر مگر
منصف وقت سے کوئی بھی گزارش نہیں کی

ہم اگر چاہتے ہر فاصلہ مٹ سکتا تھا
وہ بھی آگے نہ بڑھا میں نے بھی کوشش نہیں کی

انعام

Wednesday, October 26, 2016

غزل

زندگی تونے عجب رہ سے گزارا ہے مجھے
اب فقط درد ہی جینے کا سہارا ہے مجھے

پھر مرے دل   میں کسی درد نے انگڑائی لی
پھر کسی شخص نے ماضی سے پکارا ہے  مجھے

یاں سبھی لوگ کسی اور قبیلے کے ہیں
میرے معبود کہاں تونے اتارا ہے مجھے

جو مقدر کا ستارا تھا مرے,ٹوٹ گیا
"اب مری آنکھ کا آنسو ہی ستارا ہے مجھے"

بس یہی فرق ہے ہم دونوں میں اے دوست مرے
میں جیا ہوں اسے اور اس نے گزارا ہے مجھے

دشمن جاں نے بہت زخم دئے ہیں لیکن
چارہ گر تیری مسیحائی نے مارا ہے مجھے

اب نہیں وصل کی خواہش مرے ٹوٹے دل کو
اب ترا ہجر مری جان گوارا ہے مجھے

Tuesday, October 25, 2016

غزل

چلوں تو راستہ مانگوں گروں تو آسرا مانگوں
مسافر ہوں بھلا اس کے سوا میں اور کیا مانگوں

جسے جو چاہئے ہوتا ہے تو وہ بخش دیتا ہے
مرے بارے میں تو سب جانتا ہے تجھ سے کیا مانگوں

اداسی چیختی ہے رات دن دل کے محلے میں
اندھیرا چار سو پھیلا ہے میں کس سے دیا مانگوں

مقدر میں لکھا ہوگا تو مجھ کو مل ہی جائے گا
میں کیوں اک شخص کو اپنی دعا میں با رہا مانگوں

مجھے تم سے محبت ہے مگر جی چاہتا ہے اب
میں تم کو بھول جاؤں رب سے کوئی دوسرا مانگوں

انعام

Tuesday, October 11, 2016

kavita

कविता

एक तस्वीर जो वर्षों पहले मैने
अपने कमरे की दीवार पे टांगी थी
सोच रहा हुं उसको आँखें दान करूँ
ताकि वो सब देख सके
कैसे ग़म के साए खिरकी से अन्दर आते हैं
कैसे दीवारों पर दूख उगते है
कैसे मैं
उसकी याद में हर लम्हा,अपने अनदर मरता रहती हूँ
कैसे सूबह से शाम तलक
मैं अपने बिखरे ख्वाबों की ताबीरें पढता रहता हूँ
कैसे उम्मीदों का एक दिया
इस कमरे के इक त़ाक पे अब भी रौशऩ है
कैसे इस कमरे में सूरज की किरणें आने से कतराती हैं
कैसे इस कमरे के अन्दर यादें बिखरी रहती हैं

मैं जो वर्षों पहले टूट चुका हूँ
कैसै इस कमरे में जिन्दा रहता हूँ

सोच रहा हुं उसको आँखें दान करूँ
ताकि वो सब देख सके

इन्आम आजमी

غزل

ندی ,تالاب, پنچھی, پیڑ سارے, سب ہمارے تھے
محبت میں جسے اے دوست ہم اک روز ہارے تھے

وہاں کی بستیوں پہ اب اداسی راج کرتی ہے
بہاریں رقص کرتی تھیں جہاں اچھے نظارے تھے

سہانے وقت کی یادیں مجھے اکثر رلاتی ہیں
بہت پیارے تھے وہ لمحے جنہیں مل کر گزارے تھے

وہ میرے ساتھ تھا لیکن میں اس سے مل نہیں پایا
عجب قسمت تھی ہم دونوں ندی کے دو کنارے تھے

بچھڑنے کا لیا تھا فیصلہ تم نے,کبھی سوچا
ہمارے تم نہ تھے ہمدم مگر ہم تو تمہارے تھے

غزل

مجھ سے اب اس کا رابطہ بھی نہیں
جو مری ذات سے جدا بھی نہیں

میں جسے زندگی سمجھتا  ہوں میں
میرے بارے میں سوچتا بھی نہیں

وہ مجھے زخم دے رہا ہے مگر
دل کو اس سے کوئی گلہ بھی نہیں

خود کو قربان کر دیا جس پر
وہ مرے حق میں بولتا بھی نہیں

اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ
اپنے ہونے کا واہمہ بھی نہیں

غزل

درد سے آشنائی ہو رہی تھی
میری مجھ سے جدائی ہو رہی تھی

رو رہی تھیں تمام دیواریں
جانے کس کی رہائی ہو رہی تھی

میری آنکھوں سے خون گر رہے تھے
چیز اپنی پرائی ہو رہی تھی

میں محبت کی بات کر رہا تھا
اور مری جگ ہنسائی ہو رہی تھی

رو رہے تھے عدو کے مرنے پر
جانے کیسی لڑائی ہو رہی تھی

میں غم دل سنا رہا تھا اور
ہر طرف واہ واہی ہو رہی تھی

انعام

غزل

کچھ نہ تھا یقیناً ان ریگزار آنکھوں میں
جب سے اس کو دیکھا ہے,ہے بہار آنکھوں میں

خواب ہو کہ بیداری حال ہے یہی اپنا
کوئی آتا جاتا ہے بار بار آنکھوں میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے اب وہ لوٹ آئے گا
اک امید ہے اب بھی بے قرار آنکھوں میں

چاہ دے اگر لوگو وہ  تو یہ بھی ممکن ہے
کہ خوشی ٹھہر جائے اشکبار آنکھوں میں

ہائے سادگی اس کی کتنی جان لیوا ہے
لب میں مسکراہٹ ہے اور پیار آنکھوں میں

اس سے کب ملا تھا کچھ پتہ نہیں مجھکو
دل میں نقش ہیں یادیں انتظار آنکھوں میں

اس کی آنکھ میں سچ مچ ہے عجیب سا جادو
اس کو ڈھونڈ سکتا ہوں میں ہزار آنکھوں میں

غزل

ہے میری کہانی میں جو کردار تمہارا
دنیا کو بتا دیتا ہے معیار تمہارا

ہم جان رہے ہیں کہ منافق ہے یہاں کون
پر نام نہیں لیں گے مرے یار تمہارا

جس طور بھی چاہو مجھے نیلام کرو تم
یہ لوگ تمہارے ہیں یہ بازار تمہارا

کچھ خواب جو تعبیر کے رستوں پہ کھڑے تھے
وہ ٹوٹ گئے دیکھ کے انکار تمہارا

اے زندگی!!میں ہی تھا محبت کا طرفدار
لو مان لیا میں ہوں گنہگار تمہارا

غزل

کیا ہے وجہہ خامشی یہ سب کہاں سمجھیں گے لوگ
ہم نہ بولیں گے تو ہم کو بے زباں سمجھیں گے لوگ

جھوٹ پہ ایمان لاتے جا رہیں جس طرح
وقت آئے گا زمیں کو آسماں سمجھیں گے لوگ

رائیگاں جائیں گی سب قربانیاں اپنی یہاں
دیکھنا اک دن ہمیں کوہ گراں سمجھیں لوگ

آؤ لکھیں نام اپنا وقت کی دیوار پر
ایک دن ہم کو بھی ورنہ بے نشاں سمجھیں گے لوگ

میں صحفیہ عشق کا تم ہو محبت کی کتاب
اپنے سارے لفظ کو وہم و گماں سمجھیں گے لوگ

اے مکین دل ٹھہر,مت کوچ کر اس شہر سے
تیرے جانے سے ہمیں خالی مکاں سمجھیں گے لوگ

تم مرے بارے میں دنیا سے کبھی مت بولنا
تم ہی سوچو!! کیا ادھوری داستاں سمجھیں گے لوگ؟

انعام عازمی

Saturday, October 8, 2016

Nazm "Hamko Azadi leni Hai"

Hamko Azadi leni hai
Hamko Azadi leni hai

Jo mulk ka sauda karte hain
qanoon ko andha karte hain
aurat ko nanga karte hain
bharat ko ruswa karte hain
un choron se,makkaron se
har zulm ke thekedaron se
Hamko Azadi leni hai

Jo izzat ko neelam kare
jo sirf ghinauna kaam kare
har shakhs jo amn ka dushman ho
har shakhs jo qatle aam kare
ab aisi har bimari se
mazhab ke har bewpari se
Hamko Azadi leni hai

Jo khoon ki holi khelte hain
Nafrat ki boli bolte hain
jo Hindu Muslim kar-kar ke
Bas zahr fiza mein gholte hain
dahshat failane walon se
danga karwane walon se
Hamko Azadi leni hai

Jo ilm na hasil karne de
jo sidhi raah na chalne de
jo hamko begaana samjhe
iss mulk mein jo na rahne de
bajrangi se aur sanghi se
majboori se aur tangi se
Hamko Azadi leni hai

Jo jang ke haami hote hain
woh log haraami hote hain
jo nafrat ko failaate hain
dil unke juzami hote hain
Qatil se aur gaddaron se
insaaf ke pahredaaron se
Hamko Azadi leni hai
Hamko Azadi leni hai

Inaam Azmi

Monday, September 19, 2016

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

نظم

ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ
ﻭﮦ ﺯﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﮧ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺗﺎﺭﮮ ﮔﺎ ﺗﻮ
ﺁﺝ ﺗﮏ ﻭﺍﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻼﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺳﮑﺎ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﮔﺮ ﮨﮯ ﺗﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ _ ﮐﺮ
ﭘﺮ ﻣﺮﮮ ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﻣﺖ ﺑﻨﺎ
ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ
ﺩﻝ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺷﺌﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﮐﻮﺯﮮ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﮔﺌﮯ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﯾﺰﮦ ﺭﯾﺰﮦ ﮨﻮﺋﮯ
ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﮐﮫ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﭨﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﺟﻮ ﺯﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ
ﺁﮒ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺩﮨﺸﺖ ﺯﺩﮦ ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ
ﻻﺵ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻣﻮﮌ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﭼﺎﮎ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻣﺮﯼ ﺧﺎﮎ ﮐﻮﺯﮮ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ
ﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﺎ ﭘﮭﺮﻭﮞ
ﺍﯾﺴﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﮧ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭ ﻧﺸﺎﮞ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺩﺭﺑﺪﺭ ﭨﮭﻮﮐﺮﯾﮟ ﮐﮭﺎ ﮐﮯ ﮔﺮﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﮈﮬﺎﻝ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﺍﻟﮓ ﺭﻭﭖ ﺩﮮ
ﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺎﮎ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﮮ ﭼﺎﮎ ﭘﺮ ﻣﺖ ﭼﮍﮬﺎ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ
ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻋﺎﺯﻣﯽ

Wednesday, August 24, 2016

غزل

زخموں کا کردار نبھانے والا تھا
غم کی اک تصویر بنانے والا تھا

کشتی کو منجھدار میں لانے والا تھا
میں دریا کا دل بہلانے والا تھا

تم نے جس بادل کو بے غیرت سمجھا
صحرا میں پانی برسانے والا تھا

ایک پرندہ پھر اپنی بربادی کا
پیڑوں پر الزام لگانے والا تھا

غم کی بدلی چھائی تھی ہر سو ورنہ
میں سورج کو آنکھ دکھانے والا تھا

بس بستی کی باتیں کرنے والے کو
میں صحرا کا غم سمجھانے والا تھا

تم نے اتنی دیر سے دروازہ کھولا
لوٹ گیا,جو اندر آنے والا تھا

انعام عازمی

غزل

بادل  کی ہر بات مکمل جھوٹی ہے
بارش نے صحرا کی عزت لوٹی ہے

رستے کی تعمیر نہیں کی ہے میں نے
وہ دیوار تو خود ہی گر کر ٹوٹی ہے

میں ساحل پہ ہوں کشتی منجھدار میں ہے
میں چھوٹا ہوں یا پھر کشتی چھوٹی ہے

سب پیاسے صحرا میں آکر بیٹھے ہیں
یعنی اس دریا کی قسمت پھوٹی ہے

میں نے خواب میں اس کو چھو کر دیکھا تھا
تب سے نیند کی دیوی مجھ سے روٹھی ہے

غزل

صحرا کی آنکھوں میں دریا دیکھا ہے
نا ممکن کو ہم نے ہوتا دیکھا ہے

میں جنگل سے بات نہیں کرنے والا
میں نے ایک پرندہ روتا دیکھا ہے

دیوانے کی آنکھیں سب کچھ کہتی ہیں
اس نے اپنے خواب میں کیا کیا دیکھا ہے

خوابوں کی تعبیر جہاں پر ممکن ہے
کس نے اس بستی کا رستہ دیکھا ہے

تم کو کیا جانو وحشت کس کو کہتے ہیں
تم نے بس وقت سنہرا دیکھا ہے

مجھ کو توڑ کے  رستے تعمیر کرو
میں نے ہر دیوار پہ لکھا دیکھا ہے

آخر دل نے پوچھ ہی ڈالا آنکھوں سے
تم نے کیوں اس شخص کو اتنا دیکھا ہے