Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Friday, June 24, 2016

امجد صابری کی یاد میں

امجد صابری کی یاد میں

کرم مانگتا تھا عطا مانگتا تھا
وہ رحمت کی ہر سو گھٹا مانگتا تھا

خدا سے خدا کی رضا مانگتا تھا
وہ بس دامن مصطفٰے مانگتا تھا

اندھیروں میں بدرالدجٰی مانگتا تھا
وہ جب مانگتا تھا بھلا مانگتا تھا

نہ شہرت کی خواہش نہ دولت لالچ
رحیمی کا صدقہ سدا مانگتا تھا

وہ ہاتھوں کو اپنے اٹھاکر ہمیشہ
مریضوں کی خاطر شفا مانگتا تھا

بلاؤں سے ہم کو سدا دور رکھنا
یہی اپنے رب سے دعا مانگتا تھا

کیا کس لئے قتل امجد کا تم نے
ارے قاتلوں تم سے کیا مانگتا تھا

انعام عازمی

Saturday, June 11, 2016

غزل

گرے گی سر سے تو پگڑی نہیں اٹھاؤں گا
میں جھک کے چیز کوئی بھی نہیں اٹھاؤں گا

میں جانتا ہوں قبیلے میں سب منافق ہیں
سو میں کسی پہ بھی انگلی نہیں اٹھاؤں گا

مری انا بھی اجازت مجھے اگر دے دے
ضمیر بیچ کے کچھ بھی نہیں اٹھاؤں گا

قبیلہ عشق کے حاکم سے جاکے کہہ دو یہ
میں اس کے پاپ گٹھری نہیں اٹھاؤں گا

میں اپنے شبد سے دشمن کی جان لے لوں گا
میں اپنے ہاتھ میں برچھی نہیں اٹھاؤں گا

میں خوش ہوں اس کی ودائی پہ اور دعا گو ہوں
مگر میں یار کی ڈولی نہیں اٹھاؤں گا

مجھے امیر بنایا گیا ہے قافلہ کا
میں تیز دھوپ میں چھتری نہیں اٹھاؤں گا

جو دیکھنا ہے اسے سامنے سے دیکھوں گا
نظر کسی پہ بھی ترچھی نہیں اٹھاؤں گا

انعام عازمی

غزل

زخمی ہے روح آنکھوں میں پانی ابھی بھی ہے
جو کچھ نہیں ہے اس کی نشانی ابھی بھی ہے

زندہ نہیں ہوں زندگی پھر بھی ہے ساتھ ساتھ
کردار مر گیا ہے کہانی ابھی بھی ہے

اک شخص آگیا ہے نیا ہم کو اس سے کیا
کمرے میں ساری چیز پرانی ابھی بھی ہے

امید کی لکیر سبھی مٹ گئی مگر
دل اس کے انتظار میں جانی ابھی بھی ہے

بارات وحشتوں کی بھلا کیسے پار جائے
دریائے ذہن و فکر میں پانی ابھی بھی ہے

ہے داستان عشق یہی مختصر انعام
راجا کا قتل ہو گیا رانی ابھی بھی ہے

انعام

Thursday, June 9, 2016

غزل

ﻣﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ؟
ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ؟

ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺮﺍ
ﻣﻄﻠﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺮﮮ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺍﺷﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﻮﮒ
ﺑﭽﮭﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ؟

ﮐﻞ ﺷﺐ ﮨﻮﺍ ﭼﺮﺍﻍ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ
ﺳﻮﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ
ﮔﺰﺭﺍ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ
ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﯾﺎﺭ ﻣﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﭼﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﺎ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﺍﻧﻌﺎﻡ
ﮐﯿﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﮯ ﮔﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ

ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻋﺎﺯﻣﯽ

غزل

دل ہے اسیر یاس کہاں جائیں بولیے
ہے روح بھی اداس کہاں جائیں بولئے

اس شہر نامراد سے رخصت ہوا ہے جو
تھا زندگی کی آس,کہاں جائیں بولیے

پہلے ہم اس کی یاد سے کرتے تھے گفتگو
وہ بھی نہیں ہے پاس کہاں جائیں بولیے

دل تو فراق یار میں مرنے کو ہے بضد
ہے کون غم شناس کہاں جائیں بولیے

آئے گی پھر بہار چمن میں خزاں کے بعد
یہ ہے محض قیاس کہاں جائیں بولیے

صحرا میں لا کے چھوڑ گئی زندگی ہمیں
ہے مدتوں کی پیاس کہاں جائیں بولیے

یادوں کی تیز دھوپ ہے ہر سمت شہر میں
ہے زخم بے لباس کہاں جائیں بولیے

Tuesday, June 7, 2016

غزل

ہر گھڑی کی ہے خودکشی میں نے
یوں گزاری ہے زندگی میں نے

وہ مرے ساتھ تھا مگر اس کی
خوب محسوس کی کمی میں نے

کیسے منسوب ہو گئی مجھ سے
بات وہ جو نہیں کہی میں نے

ہو کے  خاموش سارے لوگوں کی
بند کر دی تھی بولتی میں نے

آج پھر تیری یاد آئی ہے
آج پھر اپنی جان لی میں نے

نام جس میں لکھا ہوا تھا ترا
پھاڑ دی ہے وہ ڈائری میں نے

ہے تعجب کہ اس سے ہو کے جدا
ایک سگریٹ بھی نہ پی میں نے

انعام عازمی

غزل

نہ جانے کس طرف ہم جا رہے ہیں
ہمیں سب دیکھ کر گھبرا رہے ہیں

بلندی کا نشہ جن کو چرھا تھا
وہ سارے لوگ نیچے آ رہے ہیں

چمن کس کے حوالے کر دیا ہے
جو سارے پھول اب مرجھا رہے ہیں

ہماری قوم اندھی ہو گئی ہے
تو ہم کیوں آئینہ دکھلا رہے ہیں

تو میرے شہر آیا ہے جب سے
سہانے خواب سب کو آ رہے ہیں

کہاں لے آئی ہے اے زندگی تو
ہم اپنی ذات سے ٹکڑا رہے ہیں

غزل

ہر سو ہے بس ایک صدا ہم ہار گئے
ایسا آخر جانے کیا ہم ہار گئے

اس کو خوش کرنے کی خاطر ہی اس سے
جنگ لڑی اور مان لیا ہم ہار گئے

بول رہا تھا اس سے میں خوش رہنا تم
پوچھ رہی تھی پاگل,کیا ہم ہار گئے

یادوں کے کھنڈر سے اب بھی راتوں کو
آتی ہے غمگین صدا ہم ہار گئے

جنگ انا کی جیت گئے دونوں لیکن
دونوں نے ہر بار کہا ہم ہار گئے

جانی بس اک شخص کو پانے کی خاطر
کیا بتلائیں کیا سے کیا ہم ہار گے

پتھر کے سب لوگ تھے اس کی بستی میں
دل شیشہ تھا ٹوٹ گیا ہم ہار گئے

غزل

آتی ہے اب کدھر سے ہوا ہم کو اس سے کیا
کیوں بجھ گیا چراغ وفا ہم کو اس سے کیا

تم کو خوشی سے واسطہ ہے اے مرے عزیز
ہم ہیں اسیر رنج و بلا ہم کو اس سے کیا

جب ہم نے دی صدا تو رکا ہی نہیں کوئی
اب دے رہا ہے کون صدا ہم کو اس سے کیا

اس شہر حادثات میں جینا کمال ہے
کیوں چاک ہو گئی ہے قبا ہم کو اس سے کیا

اب وہ بھی وہ نہیں رہا نہ ہم ہی ہم رہے
رشتہ جو درمیان میں تھا ہم کو اس سے کیا


جب چارہ گر نہیں رہا اس شہر میں کوئی
کس نے دیا ہے زخم نیا ہم کو اس سے کیا

اب بھی وہ شخص جان سے زیادہ عزیز ہے
گو لاکھ ہم لگائیں صدا "ہم کو اس سے کیا"

انعام عازمی