Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, January 18, 2017

غزل

موت بے موت ماری جائے گی
زندگی یوں گزاری جائے گی

راہ میں اک غلام کے گھر پہ
شاہزادی اتاری جائے گی

اس لئے سب سوار ہو رہے ہیں
اس گلی تک سواری جائے گی

اس کے بابا نہیں رہے سو اب
وہ زمیں سے کنواری جائے گی

اب کہانی میں بس اداسی ہے
اب وہ لڑکی پکاری جائے گی

شاہزادے نے جنگ جیت لی ہے
اک بھکارن سنواری جائے گی

اس کہانی کا اختتام کرو
ورنہ عزت ہماری جائے گی

نظم

آج تو یوں ہوا
اک پلیٹ فارم پہ
میری اپنی کہانی دکھی
زندگانی دکھی
کہ تبھی
سرخ سگنل ہٹا
ٹرین چلنے لگی

زندگی رک گئی

غزل

تونے یہ بات کیوں نہ مانی دوست
ختم ہوتی ہے ہر کہانی دوست

اس نے تحفے می lighter دیا ہے
میں نے سگریٹ ہے جلانی ہے دوست

زخم, بوسے میں فرق کچھ بھی نہیں
دونوں ہیں پیار کی نشانی دوست

ہاں یہ دریا کبھی سمندر تھا
مچھلیاں پی گئ ہیں پانی دوست

اب کہاں Last seen دکھتا ہے
ہوگئی ہے بہت سیانی دوست

اب نئی چیز چاہیے انعام
زندگی ہو گئی پرانی دوست

غزل

وقت تو اب ہر وقت تماشہ کرتا ہے
تو کیوں اتنا دھیان سے دیکھا کرتا ہے

بس یہ سوچ کہ ہم دونوں نے صبر کیا
وہ جو بھی کرتا ہے اچھا کرتا ہے

پیار-محبت پیٹ نہیں بھر سکتے دوست
روزی روٹی کی خاطر کیا کرتا ہے؟

ہر دم کار میں جانے والی لڑکی کا
پاگل اسکوٹی سے پیچھا کرتا ہے

اس منزل کو جانے والے جانتے ہیں
رستہ کیسے نا نا نا نا کرتا ہے

کیسے تیر کے دریا پار کرے گا,جو
کشتی بھی رسی سے باندھا کرتا ہے

یار میں جس کو ہر دم سوچتا رہتا ہوں
میرے بارے میں کیا سوچا کرتا ہے

تشنہ لب کیوں میرے سپنے دیکھتے ہیں
صحرا بھی کیا پیاس بجھاس کرتا ہے

فلموں میں سب جھوٹ نہیں ہوتا ہے دوست
وہ بھی مجھکو ایسے دیکھا کرتا ہے

غزل

سہر فہرست تھے جو جاہلوں میں
خود کو گن نے لگے ہیں قابلوں میں

کچھ پرندوں کا نام شامل ہے
ایک بوڑھے شجر کے قاتلوں میں

اور کیا بوجھ میں اٹھاؤں دوست؟
زندگی دب گئی ہے فائلوں میں

تو نہیں جانتا تری خاطر
عمر گزری مری نوافلوں میں

ایسے آسیب مجھ میں آ بسے ہیں
خوف طاری ہے سارے عاملوں میں

غزل

میں سوکھے پیڑ میں ہر روز پانی ڈالوں گا
تمام عمر پرندوں سے پھر دعا لوں گا

بچھڑنے والے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
میں اتنی جلدی نیا دوست اک بنا لوں گا

میں بار ہجر اکیلے نہیں اٹھاؤں گا
ترے خلاف بہت جلد فیصلہ لوں گا

جو بے زبان پرندوں کو آسرا نہیں دے
چمن سے ایسے درختوں کو کاٹ ڈالوں گا

ہے آج بھی اسے افسوس اپنے فیصلے پر
وہ اس یقین سے روٹھا تھا میں منا لوں گا

وہ سوچتا ہے کہ میں دستیاب ہوں ہر دم
سو اس کو اب سے قیامت تلک میں ٹالوں گا

میں اجنبی پہ بھروسہ کبھی نہیں کرتا
تو اپنی کار میں کیسے تجھے بٹھا لوں گا

مجھے سہارا نہیں چاہئے کسی کا بھی
جو بوجھ میرا ہے اب میں اسے اٹھا لوں گا

صلیب درد پہ وارا گیا ہوں کتنی بار
میں اپنی ذات کا اک روز جائزہ لوں گا

یہ موڑ اپنی کہانی کہ اختتام کا ہے
میں تجھکو چھوڑ کے اب اپنا راستہ لوں گا

انعام

غزل

اتر گئے ہیں مگر دھیان ریل گاڑی میں ہے
جو اپنے پاس تھا سامان ریل گاڑی میں ہے

ابھی ہوا ہے یہ اعلان آگے خطرہ ہے
عجیب خوف میں ہر جان ریل گاڑی میں ہے

یہ سوچنا ہے کہ کردار میرا کیا ہوگا
نئی کہانی کا عنوان ریل گاڑی میں ہے

پلیٹ فارم پہ سب اس کے انتظار میں ہیں
نہ جانے کون سا انسان ریل گاڑی ہے

اترنے والے سبھی سوگوار لگتے ہیں
سنا ہے میر کا دیوان ریل گاڑی میں ہے

کسی نے وقت سے پہلے ہی چین کھینچ دی ہے
ہر ایک شخص پریشان ریل گاڑی میں ہے

یقین کیجئے پچھلے جنم ملے تھے ہم
ہماری آپ کی پہچان ریل گاڑی میں ہے

انعام