Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, October 4, 2017

منقبت-امام عالی مقام

بیٹھے تھے سوگوار پرندے درخت پر
کربل میں وار جب ہوا مستوں کے مست پر

ﷲ کیا مقام ہے چھو کر لب حسین
ہے تشنگی کو ناز بہت اپنے بخت پر

دنیا میں اب یزید کا نام و نشاں نہیں
بیٹھے ہیں اب بھی شاہ محبت کے تخت پر

ہیں زندگی کے بعد بھی زندہ مرے امام
حیرت زدہ ہے موت بھی اپنی شکست پر

مولی بروز حشر مجھے اس کے ساتھ رکھ
اسلام ناز کرتا ہے جس حق پرست پر

ہیں  اس لئے بلند بلندی سے بھی حسین
بیعت نہ کی یزید کے ناپاک دست پر

انعام عازمی

نظم

آؤ گریہ کریں
کپکپاتی ہوئی ان چراغوں کی لو دیکھ کر
جو ہمیں کہہ رہی ہیں کہ اب روشنی ختم ہونے کو ہے
اب یہاں تیرگی اپنے بانہوں کو پھیلائے گی
اور یہ اندھے جنہیں روشنی کاٹتی ہے سدا
اس کی بانہوں میں اپنی ہوس کو مٹانے چلے آئیں گے
آؤ  گریہ کریں
اس بدلتے ہوئے وقت کو دیکھ کر
جس میں اب پریم کی کوئی بھاشا نہیں
کوئی آشا نہیں
جس میں انسانی شکلوں میں چاروں طرف بھیڑئے پھر رہے ہیں
جنہیں
خون کی چاہ ہے
خون بھی وہ جو انسانیت کے طرفدار ہیں
آؤ ماتم کرے
آخری سانس لیتی ہوئی اپنی تہزیب پر
جس کو ہم نے بچانے کا وعدہ کیا تھا کبھی

آؤ ماتم کریں
اور یہ مان لیں
اب کوئی آکے آنکھوں سے نہیں پوچھے گا
اب کوئی آکے ہم سے کہے گا نہیں
"دوستا!! وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا"

آؤ گریہ کریں
آہ و زاری کریں
خود کو مٹتے ہوئے دیکھ کر

نظم

ایک نظم بنت آدم کی طرف سے

میں!! یعنی آدم کی بیٹی
زمانے کے ہر مرد سے پوچھتی ہوں
کہ کب تک ہمیں اپنی جھوٹی تسلی سے بہلاؤگے
کب تلک بنت حوا کی چیخوں کو سنگیت کا دھن سمجھتے رہو گے بھلا
کب تلک بنت آدم کی عصمت کی قیمت لگاتے رہو گے یوں ہی
تم جو عورت کو  "بستر" سمجھتے ہو کب یہ سمجھ پاؤ گے
بنت آدم کھلونا نہیں
جن سے تم اپنے ناپاک دل کا کہا مان کر
اپنے اندر ہوس کی بھڑکتی ہوئی آگ ٹھنڈی کرو

جانتی ہوں کے تم
اپنے سطحی خیالوں سے باہر نہیں آؤ گے
اپنے اندر میں پھیلی غلاظت کو تم دھو نہیں پاؤگے

اس لئے بس کرو!!
باطنی کوڑھیوں بس کرو!!
اپنی جھوٹی تسلی کے الفاظ مت دو مجھے

صاف اعلان کر دو "ہمیں راہ چلتی ہوئی لڑکیاں تارنے, سیٹیاں مارنے میں مزہ آتا ہے"
صاف اعلان کر دو کہ "ہم اپنی اوباش نظروں سے عورت کے جسموں سے کپڑے ہٹاتے رہیں گے سدا
ہم نہیں سدھریں گے

انعام عازمی

غزل

بے چینی ہے ماچس لا سگریٹ جلا
بھرنی ہے اندر کی خلا سگریٹ جلا

اس ہر جائی کے جیسا اس دنیا میں
کوئی ہے؟ لا حول لا سگریٹ جلا

جانی تو بھی ہجر منانے آیا ہے
اچھا تو پھر ہاتھ ملا سگریٹ جلا

لوگ اذیت کیوں کہتے ہیں چاہت کو
مجھ پہ اب یہ راز کھلا سگریٹ جلا

کیا پینے سے عمر ہماری گھٹتی ہے؟
ایسا ہے تو اور پلا سگریٹ جلا

آنکھ ہماری خواب کسی کے توبہ ہے
سچ مچ ہے یہ عشق بلا سگریٹ جلا

انعام عازمی

غزل

آنکھوں میں تصویر بسا کے راجکماری کی
اپنی قسمت سے بنجارے نے غداری کی

اس کے بعد کسی نے پھر کمرے میں شمع جلائی
لیکن میری ذات کے اندر رہ گئی تاریکی

اک سگریٹ کا پیکٹ لیکر چھت پر جا پہنچا
اور پھر اس کی یاد سے لڑنے کی تیاری کی

کیلنڈر یہ چیخ کے بولا نام نہ لو اس کا
میں نے جب بھی دیواروں سے بات تمہاری کی

اس سے خود کو مانگ رہا ہوں اب میں رو رو کر
واٹ لگادی یار محبت نے خودداری کی

میں نے مجوری میں اس سے رشتہ توڑا تھا
اور وہ لڑکی سمجھ نہ پائی وقت کی باریکی

یہ جو میں خوش رہتا ہوں نا اس کا راز بتاؤں
گم کر دی ہے چابھی ماضی کی الماری کی

انعام عازمی

غزل

آگ لگی تھی عشق کی اک چنگاری سے
جل گئے خواب ہمارے باری باری سے

میں نے سوچا پھول کی خوشبو آئے گی
آنسو نکلے چاہت کی الماری سے

اپنے ہاتھ میں میرے نام کی ریکھا کھینچ
سوچ رہا ہوں بولوں راجکماری سے

مولی میرے ساتھ پریشانی یہ ہے
خواب نہیں ٹوٹا کرتے بیداری سے

سچ بولوں تو دوست مرے اندر وحشت
آکر بس گئی ہے دل کی غداری سے

اندھیرے سے باہر لانے دنیا کو
سورج نکلا ہے پوری تیاری سے

کھو دیتے ہیں اتنی آسانی سے کیوں؟
جن کو حاصل کرتے ہیں دشواری سے

انعام عازمی

غزل

وہ پھول یا کانٹا بنتا ہے
اب دیکھنا ہے کیا بنتا ہے

میں خواب ہوں اک شہزادی کا
مرا نکھڑا کرنا بنتا ہے

پھر یاد تمہاری آئی ہے
سگریٹ تو پینا بنتا ہے

تو دوست ہے میرے دشمن کا
اس بات پہ جھگڑا بنتا ہے

مری آنکھ میں آنسو آتے ہیں
جب کوئی تماشہ بنتا ہے

تو سلجھی میں الجھا لڑکا
ترا غصہ ہونا بنتا ہے

یہ موڑ جدائی والا ہے
اس موڑ پہ رونا بنتا ہے

انعام

غزل

دل نے دی ہے صدا عشق نازل ہوا
مرحبا مرحبا عشق نازل ہوا

روح کو بخش دی آپ نے زندگی
شکریہ محرما عشق نازل ہوا

اپنے ہونے کا مطلب سمجھ آ گیا
چاہئے اور کیا عشق نازل ہوا

مل گئی روشنی ہم اندھیروں کو بھی
دیکھ لے دوستا عشق نازل ہوا

زندگانی کا غم رائیگانی کا غم
اب نہیں خالقا عشق نازل ہوا

لفظ خوش ہیں کہ ان کو معانی ملے
اور مجھے تو ملا عشق نازل ہوا

مکرین وفا اب ہیں حیرت زدہ
دیکھ کر معجزہ عشق نازل ہوا

تو کجا من کجا پر ترے نام کا
مجھ پہ اے سیدا عشق نازل ہوا

اسم اور جسم دونوں ہوئے شادماں
عشق نازل ہوا عشق نازل ہوا

غزل

بن گئی ہے پھر سوالی زندگی
چاہتی کیا ہے یہ سالی زندگی

کیوں مجھے پروردگارا آپ نے
بخش دی آسیب والی زندگی

پھنس گئی تھی یاد کے ملبے میں جب
ہم نے مشکل سے نکالی زندگی

ڈر رہی ہے روح تجھ کو دیکھ کر
تو نے کیا صورت بنالی زندگی

دل پہ دستک عشق نے دی تھی مگر
ہم نے عافت سے بچالی زندگی

سوچتا ہوں دان کر دوں موت کو
میرے مولی درد والی زندگی

غزل

دعا میں مانگ رہی ہو خدا سے کیا لڑکی
یہ بات راز ہی رکھتی ہو کیوں سدا لڑکی

تمہارے ہونے کا مطلب نہیں سمجھتے جو
تمہارے ہو نہیں سکتے ہیں بھول جا لڑکی

تم احترام کی امید ان سے رکھتی ہو
جو جانتے نہیں کچھ جسم کے سوا,لڑکی

یہ لوگ باطنی کوڑھی ہیں ان سے دوری رکھ
جو بن رہے ہیں ترے سامنے خدا,لڑکی

تم ان سے مانگنے آئی ہو زندگی کے حقوق
یہ مرد تم کو پکاریں گے بے حیا لڑکی

تہمارے ہونے سے سنسار خوبصورت ہے
سو خود کو پھول بتا اور مسکرا لڑکی

نظم

*تو مرشد تو ہی دلدار*
*او سائیں او سوہنے یار*
یار بنا جینا کیا جینا
چاک ہوا جائے ہے سینہ
ڈوب نہ جائے اپنا سفینہ
*تو چاہے تو بیڑا پار*
*او سائیں او سوہنے یار*
ہر دم مورا دل گھبراوے
اک پل بھی اب چین نہ آوے
مینوں تیرا ہجر ستاوے
*بس تیری قربت درکار*
*او سائیں او سوہنے یار*
دید کو ترسوں ساجن میرے
تجھ کو سوچوں سانجھ سویرے
جوگی بن گیا عشق میں تیرے
*کرپا کر میرے سرکار*
*او سائیں او سوہنے یار*
پریتم پیارے آ بھی جارے
نینن تیری راہ نہارے
ٹوٹ نہ جائیں خواب ہمارے
*آ بھی جا میرے سردار*
*او سائیں او سوہنے یار*

غزل

مجھ کو کیا لینا دینا دوست زبر اور زیر سے
دینا باہر نکلے بس نفرت والی گھیر سے

اے لاہور کے باشندو مجھ سے ملنے آؤ نا!!
اک آواز بلاتی ہے دہلی کی منڈیر سے

دستک دینے والا شخص لوٹ گیا پیارے کب کا
تم نے گھر کا دروازہ کھولا اتنی دیر سے

غار سے نکلی روشنی پرسہ کرنے آئی جب
ہنسے گاتے جھومتے ہم نکلے اندھیر سے

نفرت کی ریکھا کھینچی ہم نے پیاری دھرتی پر
ورنہ داتا گنج کا رشتہ تھا اجمیر سے

نظم -برما

خدائے برترو بالا
کہاں ہے تو؟؟
ہماری چیخ تجھ تک کیوں نہیں جاتی؟؟
دعائیں کیوں ترے دربار سے خالی زمیں پر لوٹ آتی ہیں
خدائے بر ترو بالا
تری دھرتی اجاڑی جا رہی ہے اب
تری مخلوق ماری جا رہی ہے جو تمہیں اپنا خدا تسلیم کرتی ہے
تری تعظیم کرتی ہے
خدائے برترو بالا
یہ ظالم جو ترے ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں
یہ خوش یہ  بہت خوش ہیں
کہ تیرے نام لیوا مر رہے اور تو ان پر کرم اک نظر بھی اب نہیں کرتا
خدائے برترو بالا
ہماری عورتوں کی عزتوں پر آنچ آنے سے بچا لے اب
ہمارے ننھے معصوموں کے جسموں کی حفاظت کر
ہمارے نوجوانوں کو ضعیفوں کو تو اپنے سایہء رحمت میں تھوڑی سی جگہ دے دے
ہمیں تیرا سہارا ہے فقط تیرا سہارا ہے
سہارا دے
نہیں تو ہم یہ سمجھیں گے
*خدا مظلوم لوگوں کا نہیں ہوتا*

Gauri Lankesh

गौरी लंकेश

ऐ गौरी लंकेश तुम्हारे न होने से
पूरी धरती शर्मिन्दा है
तुमको गोली मारने वाले
बुज़दिल हैं तुमसे डरते हैं
तुम सच्चाई का दीपक थी
ये गंदी नाली के कीड़े
हिन्दुत्वा के आतंकवादी
अंधेरे में रहने वाले
इनका डरना वाजिब भी है
प्यारी गौरी
तुमको मारने वाले सारे
धीरे धीरे मर जाएंगे
इनका मरना,मरना होगा
तुम इक सोच थी, अच्छी सोच
अच्छी सोचें कब मरती हैं
अब से लेकर जब तक ये धरती क़ायम है
"हम तुमको ज़िंदा रखेंगे"

इनआम आज़मी

غزل

کون ہے میرا خریدار نہیں دیکھتا میں
دھوپ میں سایہء دیوار نہیں دیکھتا میں

خواب پلکوں پہ چلے آتے ہیں آنسو بن کر
اس لئے تجھ کو لگاتار نہیں دیکھتا میں

تیرا اس بار مجھے دیکھنا بنتا ہے دوست
اتنی امید سے ہربار نہیں دیکھتا میں

کب تلک تجھ کو یونہی دیکھتے رہنا ہوگا
زندگی جا تجھے اس بار نہیں دیکھتا میں

وہ کوئی اور ہیں جو حسب و نسب دیکھتے ہیں
میں محبت ہوں مرے یار,نہیں دیکھتا میں

ہائے وہ لوگ جو بس دیکھتے رہتے ہیں مجھے
جن کی جانب کبھی اک بار نہیں دیکھتا

غار سے نکلی ہوئی روشنی پرسہ تو کر
آ مجھے دیکھ  ہوں بیمار نہیں دیکھتا میں

انعام عازمی

غزل

کوئی  بتائے کہ بچنے کی اب دعا کیا ہے
میں جانتا ہوں کہانی میں آگے کیا کیا ہے

مجھےتو  نیند بھی ہر دم جگائے رکھتی ہے
خدا ہی جانے مری آنکھ کو ہوا کیا ہے

یہ کون  لوگ ہیں ؟بس ٹوکتے ہی رہتے ہیں
کوئی بتائے مجھے ان کا مسلئہ کیا ہے

اے زندگی ترے بائیس سال کاٹ کہ بھی
سمجھ سکا نہیں تیرا المیہ کیا ہے

یہ رنج و غم یہ اداسی یہ درد کا منظر
حیات موت نہیں ہے تو پھر بتا کیا ہے

پھنسی ہوئی ہے مری روح جسم کے اندر
وہ جسم جس پہ ابھی بوجھ جانے کیا کیا ہے

دم الست تو میں کہہ چکا ہوں تو رب ہے
تو وقت نزع سوالوں کا سلسلہ کیا ہے

غزل

جس طرف دیکھئے بازار اداسی کا ہے
شہر میں کون خریدار اداسی کا ہے

اب تو آنکھوں میں بھی آنسو نہیں آتے میرے
یہ الگ روپ مرے یار اداسی کا ہے

روح بیچاری پریشاں ہے کہاں جائے اب
اس قدر جسم پہ اب بار اداسی کا ہے

اپنے ہونے کا گماں تک نہیں ہوتا مجھ کو
جانے یہ کون سا معیار اداسی کا ہے

اب یہ احساس ہمیشہ مجھے ہوتا ہے دوست
مجھ میں اک شخص طلب گار اداسی کا ہے

آئینہ دیکھ کے معلوم ہوا ہے مجھ کو
زخم چہرے پہ بھی اس بار اداسی کا ہے

یہ اداسی مجھے تنہا نہیں رہنے دیتی
ہاں ترے بعد یہ اپکار اداسی کا ہے

منقبت امام حسین

ایسا سجدہ تھا وہ سجدے کو بھی حیرت ہوئی تھی
جب محبت کو محبت سے محبت ہوئی تھی

سارے دریاؤں کی آنکھوں میں تھے آنسو اس وقت
شاہ کے ہونٹ پہ جب پیاس کی شدت ہوئی تھی

کیا شہادت تھی وہ جب زندگی زندہ ہوئی تھی
اور تب موت کو مر جانے کی حسرت ہوئی تھی

جنگ کو بس جنگ نہیں تھی وہ  یہ میں جانتا ہوں
آنے والی سبھی نسلوں  پہ عنایت ہوئی تھی

صبر نے صبر کیا شاہ کو گرتے دیکھا
اور زمیں رونے لگی ایسی کرامت ہوئی تھی

نظم

میں تم پر نظم لکھوں گا
کہا تھا نا؟
معافی چاہتا ہوں میں
بہت چاہا
بہت سوچا
کہ تم پر نظم لکھنے کو
کوئی مصرع اٹھا لاؤں
جو تم کو اس طرح واضح کرے کہ پڑھنے والے کے تصور میں تمہارے نام کی تصویر بن جائے
مگر یہ ہو نہیں پایا
تم اتنی خوبصورت ہو
کہ سب مصرعے جو اب تک ذہن میں آئے
اگر ان کو کوئی ترتیب دے کر نظم لکھ دوں میں
تمہاری ذات کی توہین ہوگی وہ
میں تم پر نظم لکھوں گا
کہا تو تھا
مگر ممکن نہیں لگتا
تم اتنی خوبصورت ہو
معافی چاہتا ہوں میں

نظم

میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں
کبھی شاعر کی غزلوں میں
کبھی شاعر کی نظموں میں
کبھی قصے کہانی میں
محبت یہ نہیں ہوتی
محبت وہ نہیں ہوتی
مرا یہ ماننا ہے کہ
محبت بس محبت ہے
محبت دکھ نہیں دیتی
محبت میں کوئی تنہا نہیں ہوتا
محبت کا اداسی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا
محبت کرنے والے دشت میں خوشحال رہتے ہیں
محبت میں محبت سے کوئی امید کر لینا حماقت ہے
جہاں امید ہوتی ہے محبت ہو نہیں سکتی
محبت میں کوئی آگے نہیں ہوتا کوئی پیچھے نہیں ہوتا
کسے کے جسم سے اور روح سے رشتہ نہیں ہوتا
محبت تو کسی بھی چیز کے *ہونے* سے ہوتی
یہ *ہونا*فلسفہ ہے اک
یہ *ہونا* اور نہیں *ہونا* کا مطلب جو سمجھتا ہے
محبت اس کو ہوتی ہے
محبت میں کبھی موجودگی کو شرط رکھ دینا
کسی کی زندگی کو شرط رکھ دینا
محبت ہو نہیں سکتی
محبت میں کہیں ایسا نہیں ہوتا
کبھی ایسا نہیں ہوتا
کہ بس اس سے محبت ہو
جو بدلے میں محبت دے
محبت رسم تھوڑی ہے
محبت بس محبت ہے

Monday, August 7, 2017

غزل

سوچتا ہوں سدا میں زمیں پر اگر کچھ کبھی بانٹتا
تو اندھیروں کے نزدیک جاتا انہیں روشنی بانٹتا

تیرے ہوتے ہوئے ہم تجھے ڈھونڈتے پھر رہے تھے عزیز
کاش تو ہر گھڑی ہر جگہ ہم سے موجودگی بانٹتا

خالقا !! مجھکو معلوم ہوتا اگر آخری موڑ ہے
میں بچھڑتے ہوئے سارے کردار کو زندگی بانٹتا

وقت نے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں پاؤں میں ورنہ تو میں
شہر کی ساری گلیوں کو ہر وقت آوارگی بانٹتا

میرے بھائی اگر درمیاں اپنے دیوار اٹھتی نہیں
تیرا دکھ بانٹتا اور تجھ سے میں اپنی خوشی بانٹتا

مجھ کو کمرے کی دیوار, کھڑکی,کلینڈر سمجھتے تھے بس
اور کوئی نہیں جن سے میں اپنی افسردگی بانٹتا

جو اذیت کے خانے میں اب رکھ رہے ہیں محبت کو ,کاش
عشق ہونے سے پہلے انہیں میر کی شاعری بانٹتا

انعام عازمی

غزل

*غزل*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*انعام عازمی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گر جائے ناامیدی کا یہ گھر کسی طرح
بدلے مرے خیال کا منظر کسی طرح

میرا حصار ذات میں دم گھٹ رہا تھا,سو
زندہ نکل کے آگیا باہر کسی طرح

ہم شہر سنگ دل میں تھے شیشہ بدن کے مثل
تا عمر جھیلتے رہے پتھر کسی طرح

حیراں تھے خود کو دیکھ کے ,اچھا ہوا کہ اب
*آئینہ ہو گیا ہے مکدر کسی طرح*

سب بادشاہ وقت کے آگے ہیں سر نگوں
اب تک بچا ہوا ہے مرا سر کسی طرح

غم کی ندی میں مجھکو ڈبوئیگی زندگی
پھر موت لے کے آئیگی اوپر کسی طرح

ہے بوجھ اپنے خواب کے ملبے کا روح پر
ٹھہرے ہوئے ہیں جسم کے اندر کسی طرح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔⭕۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

فائلوں میں پڑی ڈگریاں
لے رہی ہیں ابھی سسکیاں

ایک جنگل ,کھلا بھیڑیا
اور باندھی ہوئی بکریاں

جانتی ہیں محبت کا دکھ
دوستو! ریل کی پٹریاں

کاٹتا ہے بلندی پہ سانپ
بولتی ہیں سدا سیڑھیاں

ایک تو گھر میں فاقہ کشی
اس کے اوپر سے چھے بیٹیاں

کھول دیتی ہے یادیں تری
روز ماضی کی الماریاں

فلم ہوگئی جدائی پہ ختم
اور بجنے لگی سیٹیاں

انعام عازمی

غزل

اپنے اندر مری ہوئی لڑکی
سوچتی ہے کہ کیوں بنی لڑکی

خواب بھی دیکھنے سے ڈرتی ہے
گاؤں کے اک غریب کی لڑکی

کوئی ہوتا نہیں مہاجر کا
دھیرے دھیرے سمجھ گئی لڑکی

وقت کے ساتھ ہو گئی خاموش
مستقل بولتی ہوئی لڑکی

ہم نے جینے اگر دیا ہوتا
اپنے بارے میں سوچتی لڑکی

مر گئی تو خیال آیا ہمیں
ہم اندھیرے ہیں,روشنی لڑکی

غزل

تھی چارو سمت عجب بے بسی جزیرے پر
بھٹک رہی تھی ہر اک زندگی جزیرے پر

ہماری نیند  نے ہم کو وہاں جگایا تھا
جہاں اداس تھا ہر آدمی جزیرے پر

وہ ایک غار جہاں پہ اندھیرا بستا تھا
وہیں سے پھیل گئی روشنی جزیرے میں

اداس شام سمند پہ ناچتی لڑکی
یہ ہم نے خواب میں دیکھا کسی جزیرے پر

ہر ایک شخص کی قسمت میں تشنگی تھی مگر
کہیں دکھائی نہیں دی ندی جزیرے پر

لکھے گئے تھے کسی اور کے مقدر میں
اتر گئے ہیں کسی اور ہی جزیرے پر

وہ اک جزیرہ جہاں سے کوئی نہیں آتا
چلے گئے مرے ابو اسی جزیرے پر

غزل

وہ پھول یا کانٹا بنتا ہے
اب دیکھنا ہے کیا بنتا ہے

میں خواب ہوں اک شہزادی کا
مرا نخرہ کرنا بنتا ہے

پھر یاد تمہاری ہے آئی
سگریٹ تو پینا بنتا ہے

تو دوست ہے میرے دشمن کا
اس بات پہ جھگڑا بنتا ہے

مری آنکھ میں آنسو آتے ہیں
جب کوئی تماشہ بنتا ہے

تو سلجھی میں الجھا لڑکا
ترا غصہ ہونا بنتا ہے

ہے موڑ جدائی والا یہ
اس موڑ پہ رونا بنتا ہے

Sunday, July 9, 2017

غزل

गिराने दर्द की दीवार क्यों नही आता
कोई हमारे लिए यार, क्यों नही आता

वो जिसके होने से हर रोज़ ईद होती है
वो मेरे गांव में हर बार क्यों नही आता

ज़माना बांटने वाला है मुझको हिस्सों में
मैं जिसका हक़ हूँ वो हक़दार क्यों नही आता

मैं आधे दाम पे बाज़ार में मुयस्सर हूँ
तो कोई मेरा ख़रीदार क्यों नही आता

वो जिसके जाने से ठहरा है वक़्त सदियो से
बढ़ाने वक़्त की रफ्तार क्यों नही आता

(ट्रेन से)

غزل

ہوں پرائے یا اپنے برے لوگ ہیں
اس زمانے میں سارے برے لوگ ہیں

ہم خدا کا بھی کہنا نہیں مانتے
یار ہم لوگ کتنے برے لوگ ہیں

اب ہوس کو محبت سمجھتے ہیں لوگ
کیا کہوں دوست ایسے برے لوگ ہیں

اب محمد سا کوئی نہیں ہے مگر
اب بھی بو جہل جیسے برے لوگ ہیں

کوئی مزہب برائی سکھاتا نہیں
سارے مزہب میں اچھے برے لوگ ہیں

ہم جو عورت کو عورت سمجھتے نہیں
ہم حقیقت میں سب سے برے لوگ ہیں

غزل

تصورات میں وہ زوم کر رہا تھا مجھے
بہت شدید توجہ کا سامنا تھا مجھے

چمک رہا تھا میں سورج کے مثل اس لئے دوست
کہیں پہ جاکے اندھیرے میں ڈوبنا تھا مجھے

مجھے وہاں سے اداسی بلا رہی تھی آج
جہاں سے شام و سحر کوئی دیکھتا تھا مجھے

پھر اس کو جاکے بتانا پڑا غلط ہے یہ
سمجھنے والے نے کیا کیا سمجھ رکھا تھا مجھے

گزر نہ پایا تھا جو جون ایلیا سے بھی
تمارے بعد وہ لمحہ گزارنہ تھا مجھے

لہو لہان ہوئے جا رہے تھے ہر منظر
کسی نے وقت کے ماتھے پہ یوں لکھا تھا یوں

میں اپنی نیند اگر ٹوٹنے نہیں دیتا
اس ایک خواب سے ہر وقت ٹوٹنا تھا مجھے

غزل

کسی نے جب مجھے صحرا کہا تھا
مری آنکھوں میں دریا آ گیا تھا

زمیں پر بعد میں اترے تھے ہم لوگ
ہمارا وقت پہلے جا چکا تھا

مجھے حل کر رہا تھا اور کوئی
میں اپنی زندگی کا مسئلہ تھا

ہماری سوچ زخمی ہو گئی تھی
اچانک ذہن میں تو آ گیا تھا

دکھایا جا رہا تھا یوں تماشہ
تماشائی تماشہ بن گیا تھا

مجھے ملنا تھا خود سے اس لئے میں
ہمیشہ اپنا رستہ دیکھتا تھا

اسے خاموش رہنا پر رہا ہے
جو لڑکا سب سے زیادہ بولتا تھا

غزل

طرحی غزل  

جو تھی اک شمع روشن, بجھ گئی کیا
اندھیرے کھا گئے سب روشنی کیا

میں خود میں چیختا رہتا ہوں ہر دم
یہی ہوتا رہے گا ہر گھڑی کیا

سمندر کیوں پریشاں ہو رہا ہے
ندی صحرا کے جانب آ گئی کیا

اٹھائے پھر رہے ہیں لاش اپنی
*بھلا ہم کیا ہماری زندگی کیا*

بنے بیٹھے ہیں جب ہم خود کے دشمن
کسی سے اب ہماری دوستی کیا

جو ہم کو آئینہ دکھلا رہے ہیں
انہیں معلوم ہے اپنی کمی کیا

میسر خود کو بھی اب ہم نہیں ہیں
تو آنی چاہیے اس پر ہنسی کیا

خدائے بر تر و  بالا بتانا
محبت ابتدا سے ایسی تھی کیا

یہ جو میں سوچتا رہتا ہوں ہر دم
یہ سب سوچا ہے تم نے بھی کبھی کیا

*انعام عازمی*

غزل

اپنی قسمت کا نہ ٹوٹے کبھی تارا- آمین
یار ہر وقت رہے صرف ہمارا - آمین

ہو شب وصل میسر سبھی دیوانے کو
رات بھر روئے نہ اب ہجر کا مارا- آمین

اب نہ کشتی کوئی طوفان کی ضد میں آئے
ڈوبنے والے کو مل جائے کنارا- آمین

جس کا ہونا ہے مجھے اس کو میسر ہو جاؤں
اب نہ بچھڑے کوئی تم سے بھی تمہارا- آمین

کوئی  پتہ نہ کسی شاخ سے  ٹوٹے یارب
ہو خزاں میں بھی درختوں کا گزارا-آمین

جس طرف دیکھوں مجھے صرف نظر آئے تو
تجھ سے منسوب ہو ہر تیک نظارا-آمین

اب اندھیرے میں نہ بھٹکے کوئی رستہ اپنا
ہو ہوا سارے چراغوں کا سہارا- آمین

نظم

Hindustani Dahshatgardo!!
kaise ho tum?
kuchh to bolo?
meri eid moharram karke,khush ro hoge?
Accha chhoro kuchh mat bolo
lekin,mujhko ye samjhao
Masoomo ka khoon bahakar kya milta hai?
Majbooron ko dil tarpa kar kya milta hai
Khud ko hindu kahne walo
Hindu kya aise hote hain???
Hindutva ki aar mein jo sab tum karte ho
usse ye sabit hota h
Khooni ho tum
atanki ho
Hindustani dahshatgardo
hosh mein aao
iss mitti ki laaj rakho tum
gandhi ka samman karo tum
Veer bhagat ki qurabni ko,Aise ruswa mat hone do
Warna aisa din aayega
apno ki laashon ko thhaame
Chikhoge aur chillaoge
aur harpal afsos karoge

hindustani dahshat gardo
logon ko apnana sikho
warna tanha rah jaoge
aur be maut hi mar jaoge

نظم

پیارے ابو
سوچ رہا تھا
عید کے دن اک نظم لکھوں گا
اس میں ساری بات لکھوں گا
کیسے کیسے یاد کیا ہے آپ کو میں نے
آپ کے زندہ نہ ہونے پر کب کب میں گھنٹوں رویا ہوں
کیسے میرے دن گزرے ہیں
کیسے میری رات کٹی ہے
کب کب یہ احساس ہوا کہ باپ کا سایا اٹھ جانے سے
اپنوں میں بھی بیگانہ ہونا پڑتا ہے
کیسے زندہ ہوکر ہر لمحہ مرنا پڑتا ہے
لیکن ابو
ڈر لگتا ہے
میری نظم کا کوئی مصرع چیخ اٹھا تو
مجھ پر جان لٹانے والے
کیا سوچیں گے
کیا سمجھیں گے
پیارے ابو
چھوٹی موٹی کچھ باتیں ہیں
اور یہ سب تو ہوتی رہتی ہیں
ہم سب خوش ہیں

ایک کمی ہے
آپ نہیں ہیں

غزل

منظر کوئی بھی دل کو لبھا کیوں نہیں رہا
تیرا خیال ذہن سے جا کیوں نہیں رہا

کب تک تو شہر خواب میں ٹھہرا رہے گا دوست
تعبیر بن کے دہر میں آ کیوں نہیں رہا

تجھ میں اگر نہیں ہوں تو پھر میں کہاں گیا
تو مجھ سے میرا حال بتا کیوں نہیں رہا

تاریکیوں نے شہر دبوچہ ہوا ہے تو
کوئی یہاں چراغ جلا کیوں نہیں رہا

رونق تمہارے دم سے اگر تھی ہر ایک سمت
تجھ سے بحال شہر وفا کیوں نہیں رہا

میں ہو کے جب نہیں ہوں تو منظر نگار تو
منظر سے میرا نقش مٹا کیوں نہیں رہا

کب تک ہمارے بیچ رہیں گی یہ دوریاں
تو آ نہیں رہا تو بلا کیوں نہیں رہا

Wednesday, May 31, 2017

غزل

کبھی تو چشم فلک میں حیا دکھائی دے
کہ دھوپ سر سے ہٹے اور گھٹا دکھائی دے

میں اقتباس اذیت ہوں لوح دنیا پہ
سو مجھ میں غم کے سوا اور کیا دکھائی

میں چاہتا ہوں کہ میرے لئے مرے مولی
لب عدو پہ بھی حرف دعا دکھائی دے

چراغ بن کے سدا اس لئے جلے ہم لوگ
ہماری ضد تھی کہ ہم کو ہوا دکھائی دے

کبھی تو صحن گلستاں سے ہو  خزاں رخصت
کبھی تو پیڑ پہ پتہ ہرا دکھائی دے

حصار ذات سے میں اس لئے نکلتا نہیں
مری نظر کو یہاں کون کیا دکھائی دے

زمانے بعد لگا خود کو دیکھ کر ایسا
کہ جیسے خواب میں اک گمشدہ دکھائی دے

انعام عازمی

غزل

اپنے ہونے کی نشانی سے الگ ہو رہا ہے
میرا کردار کہانی سے الگ ہو رہا ہے

تپتے صحراؤں کا کیا حشر ہوا کرتا ہے
اس کو سمجھاؤ جو پانی سے الگ ہو رہا ہے

اب مری بات کا مطلب نہیں ہوتا کچھ بھی
لفظ اس طرح معانی سے الگ ہو رہا ہے

یاں سبھی لوگ پلٹتے ہیں بہاروں کا ورق
سو دل اوراق خزانی سے الگ ہو رہا ہے

جس نے موجوں کے حوالے مری کشتی کر دی
خود ہی دریا کی روانی سے الگ ہو رہا ہے