Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Monday, August 7, 2017

غزل

سوچتا ہوں سدا میں زمیں پر اگر کچھ کبھی بانٹتا
تو اندھیروں کے نزدیک جاتا انہیں روشنی بانٹتا

تیرے ہوتے ہوئے ہم تجھے ڈھونڈتے پھر رہے تھے عزیز
کاش تو ہر گھڑی ہر جگہ ہم سے موجودگی بانٹتا

خالقا !! مجھکو معلوم ہوتا اگر آخری موڑ ہے
میں بچھڑتے ہوئے سارے کردار کو زندگی بانٹتا

وقت نے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں پاؤں میں ورنہ تو میں
شہر کی ساری گلیوں کو ہر وقت آوارگی بانٹتا

میرے بھائی اگر درمیاں اپنے دیوار اٹھتی نہیں
تیرا دکھ بانٹتا اور تجھ سے میں اپنی خوشی بانٹتا

مجھ کو کمرے کی دیوار, کھڑکی,کلینڈر سمجھتے تھے بس
اور کوئی نہیں جن سے میں اپنی افسردگی بانٹتا

جو اذیت کے خانے میں اب رکھ رہے ہیں محبت کو ,کاش
عشق ہونے سے پہلے انہیں میر کی شاعری بانٹتا

انعام عازمی

غزل

*غزل*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*انعام عازمی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گر جائے ناامیدی کا یہ گھر کسی طرح
بدلے مرے خیال کا منظر کسی طرح

میرا حصار ذات میں دم گھٹ رہا تھا,سو
زندہ نکل کے آگیا باہر کسی طرح

ہم شہر سنگ دل میں تھے شیشہ بدن کے مثل
تا عمر جھیلتے رہے پتھر کسی طرح

حیراں تھے خود کو دیکھ کے ,اچھا ہوا کہ اب
*آئینہ ہو گیا ہے مکدر کسی طرح*

سب بادشاہ وقت کے آگے ہیں سر نگوں
اب تک بچا ہوا ہے مرا سر کسی طرح

غم کی ندی میں مجھکو ڈبوئیگی زندگی
پھر موت لے کے آئیگی اوپر کسی طرح

ہے بوجھ اپنے خواب کے ملبے کا روح پر
ٹھہرے ہوئے ہیں جسم کے اندر کسی طرح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔⭕۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

فائلوں میں پڑی ڈگریاں
لے رہی ہیں ابھی سسکیاں

ایک جنگل ,کھلا بھیڑیا
اور باندھی ہوئی بکریاں

جانتی ہیں محبت کا دکھ
دوستو! ریل کی پٹریاں

کاٹتا ہے بلندی پہ سانپ
بولتی ہیں سدا سیڑھیاں

ایک تو گھر میں فاقہ کشی
اس کے اوپر سے چھے بیٹیاں

کھول دیتی ہے یادیں تری
روز ماضی کی الماریاں

فلم ہوگئی جدائی پہ ختم
اور بجنے لگی سیٹیاں

انعام عازمی

غزل

اپنے اندر مری ہوئی لڑکی
سوچتی ہے کہ کیوں بنی لڑکی

خواب بھی دیکھنے سے ڈرتی ہے
گاؤں کے اک غریب کی لڑکی

کوئی ہوتا نہیں مہاجر کا
دھیرے دھیرے سمجھ گئی لڑکی

وقت کے ساتھ ہو گئی خاموش
مستقل بولتی ہوئی لڑکی

ہم نے جینے اگر دیا ہوتا
اپنے بارے میں سوچتی لڑکی

مر گئی تو خیال آیا ہمیں
ہم اندھیرے ہیں,روشنی لڑکی

غزل

تھی چارو سمت عجب بے بسی جزیرے پر
بھٹک رہی تھی ہر اک زندگی جزیرے پر

ہماری نیند  نے ہم کو وہاں جگایا تھا
جہاں اداس تھا ہر آدمی جزیرے پر

وہ ایک غار جہاں پہ اندھیرا بستا تھا
وہیں سے پھیل گئی روشنی جزیرے میں

اداس شام سمند پہ ناچتی لڑکی
یہ ہم نے خواب میں دیکھا کسی جزیرے پر

ہر ایک شخص کی قسمت میں تشنگی تھی مگر
کہیں دکھائی نہیں دی ندی جزیرے پر

لکھے گئے تھے کسی اور کے مقدر میں
اتر گئے ہیں کسی اور ہی جزیرے پر

وہ اک جزیرہ جہاں سے کوئی نہیں آتا
چلے گئے مرے ابو اسی جزیرے پر

غزل

وہ پھول یا کانٹا بنتا ہے
اب دیکھنا ہے کیا بنتا ہے

میں خواب ہوں اک شہزادی کا
مرا نخرہ کرنا بنتا ہے

پھر یاد تمہاری ہے آئی
سگریٹ تو پینا بنتا ہے

تو دوست ہے میرے دشمن کا
اس بات پہ جھگڑا بنتا ہے

مری آنکھ میں آنسو آتے ہیں
جب کوئی تماشہ بنتا ہے

تو سلجھی میں الجھا لڑکا
ترا غصہ ہونا بنتا ہے

ہے موڑ جدائی والا یہ
اس موڑ پہ رونا بنتا ہے