Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, May 31, 2017

غزل

کبھی تو چشم فلک میں حیا دکھائی دے
کہ دھوپ سر سے ہٹے اور گھٹا دکھائی دے

میں اقتباس اذیت ہوں لوح دنیا پہ
سو مجھ میں غم کے سوا اور کیا دکھائی

میں چاہتا ہوں کہ میرے لئے مرے مولی
لب عدو پہ بھی حرف دعا دکھائی دے

چراغ بن کے سدا اس لئے جلے ہم لوگ
ہماری ضد تھی کہ ہم کو ہوا دکھائی دے

کبھی تو صحن گلستاں سے ہو  خزاں رخصت
کبھی تو پیڑ پہ پتہ ہرا دکھائی دے

حصار ذات سے میں اس لئے نکلتا نہیں
مری نظر کو یہاں کون کیا دکھائی دے

زمانے بعد لگا خود کو دیکھ کر ایسا
کہ جیسے خواب میں اک گمشدہ دکھائی دے

انعام عازمی

غزل

اپنے ہونے کی نشانی سے الگ ہو رہا ہے
میرا کردار کہانی سے الگ ہو رہا ہے

تپتے صحراؤں کا کیا حشر ہوا کرتا ہے
اس کو سمجھاؤ جو پانی سے الگ ہو رہا ہے

اب مری بات کا مطلب نہیں ہوتا کچھ بھی
لفظ اس طرح معانی سے الگ ہو رہا ہے

یاں سبھی لوگ پلٹتے ہیں بہاروں کا ورق
سو دل اوراق خزانی سے الگ ہو رہا ہے

جس نے موجوں کے حوالے مری کشتی کر دی
خود ہی دریا کی روانی سے الگ ہو رہا ہے

نظم

میرے دور کے اندھے شاعر
عورت بس جسم سمجھ کر
تم جو اپنی نظموں میں لکھتے آئے ہو
میں یہ تم سے پوچھ رہا ہوں
زلفوں کو بادل لکھنے سے کیا حاصل ہے
آنکھوں کو جگنو لکھنے سے کیا ملتا ہے
سرخ لب و رخسار پہ لکھہ کر کیا پاتے ہو
میرے دور کے اندھے شاعر
گندے شاعر
ایسی ویسی نظمیں لکھنا کب چھوڑوگے
عورت کو بس جسم سمجھنا کب چھوڑو گے
کب سدھروگے
اندھے شاعر
گندی سوچ سے باہر نکلو
اپنے دل کی آنکھیں کھولو
میں کہتا ہوں
عورت کو بیوی مت سمجھو
عورت کو تم ماں مت سمجھو
بہن نہ سمجھو,دوست نہ سمجھو
اندھے شاعر
گندے شاعر
عورت کو کو بس عورت سمجھو
اور پھر سوچو
عورت آخر کیا ہوتی ؟؟
تم پاؤگے
عورت اک آیت ہے جس کو پڑھ کر بھٹکے راہی اپنی بھولی راہ پہ واپس آ جاتے ہیں
عورت  ایسی شمع ہے, جو دل کے اندر پھیلی تاریکی کو اپنے نور سے روشن کر دیتی ہے
عورت ایک صحیفہ ہے, جو جس پر اترے اس کی دنیا جنت جیسی کر دیتی ہے
عورت اپنے اندر مرنے والوں کو بھی زندہ کر دیتی ہے

اندھے شاعر
گندے شاعر
*عورت کو بس جسم سمجھنا ٹھیک نہیں ہے*

غزل

جب سے مرنے کی اداکاری دکھانے لگا ہے
دل کہانی میں سمجھ داری دکھانے لگا ہے

میں اسے تحفے میں آیا ہوں محبت دینے
وہ مجھے درد کی الماری دکھانے لگا ہے

پیرہن کاغزی پہناکے مجھے عشق مرا
جانے کیوں ہجر کی چنگاری دکھانے لگا ہے

اس لئے ہاتھ میں پتھر لئے پھرتے ہیں لوگ
آئنیہ چہرے کی بیماری دکھانے لگا ہے

یہ سفر اس لئے دشوار ہوا جا رہا ہے
راستہ آگے کی دشواری دکھانے لگا ہے

اس تعلق کو نبھانا ہے منافق ہونا
کیونکہ دل آپ سے بیزاری دکھانے لگا ہے

غزل

پھر بکھرنے کی حماقت نہیں کر سکتا میں
تجھ سے دوبارہ محبت نہیں کر سکتا میں

مجھ کو معلوم ہے یہ لوگ منافق ہیں دوست
ایسے لوگوں کی امامت نہیں کر سکتا میں

تجھکو پانے کیلئے جنگ اگر لازم ہے
جیت جانے پہ رعایت نہیں کر سکتا میں

دونوں کردار کہانی سے الگ ہو گئے ہیں
کیا ہوا اس کی وضاحت نہیں کر سکتا میں

میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ترا نام نہیں
تو امانت ہے خیانت نہیں کر سکتا میں

جو فسانے کو فسانہ نہیں رہنے دیتے
ایسے لوگوں سے روایت نہیں کر سکتا میں

غزل

جب تو اپنا نہیں لگا مجھ کو
جانے کیا کیا نہیں لگا مجھ کو

تجھ کو اندر سے جانتا ہوں میں
یار چشمہ نہیں لگا مجھ کو

بول تو راستے سے ہٹ جاؤں
یار دھکا نہیں لگا مجھ کو

جس کی تم ہو گئی ہو شہزادی
وہ تمہارا نہیں لگا مجھ کو

دوست اک بات تم سے کہنی ہے
تو کسی کا نہیں لگا مجھ کو

جس کو دیکھوں تو یہ لگے "ہاں یہ"
کوئی ایسا نہیں لگا مجھ کو

تو بدل جائے گا کسی دن دوست
یہ ہمیشہ نہیں لگا مجھ کو

غزل

کیوں بارہا کہتا ہے وفا کچھ بھی نہیں ہے
میرے لئے دل میں ترے کیا کچھ بھی نہیں ہے

میں اپنے تعاقب میں پھرا کرتا ہوں ہر سو
منزل ہے کہاں میری پتہ کچھ بھی نہیں

عنوان مجھے کس لئے ہے تم نے بنایا
جب رول کہانی میں مرا کچھ بھی نہیں ہے

میں وقت کی گٹھری لئے چلتا ہوں ہمیشہ
جس میں تری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

کس خاک سے ایجاد کیا ہے مجھے رب نے
اس طرح سے ٹوٹا ہوں بچا کچھ بھی نہیں ہے

میں خود سے جدا ہو گیا ہوں, میرے لئے اب
ہر لمحہ اذیت کے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

منسوب تجھے خود سے کچھ اس طرح کیا ہے
اب مجھ میں مری جان مرا کچھ بھی نہیں ہے

غزل

دیکھ لینا کبھی ایسا نہیں ہونے دوں گا
تجھ کو اپنے لئے رسوا نہیں ہونے دوں گا

مرکزی رول نبھانا ہے یہاں سے مجھ کو
میں کہانی میں تماشہ نہیں ہونے دوں گا

ہاں میں سورج کا طرف دار نہیں ہوں,لیکن
اپنی بستی میں اندھیرا نہیں ہونے دوں گا

تم اگر مجھ کو مکمل نہیں کر سکتے ہو
میں بھی تم کو کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا

ڈوب سکتی ہیں کئی کشتیاں آکر ان میں
*قطرہ ء اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا*

جوش میں ہوش کا دامن نہیں چھوڑوں گا میں
عشق میں عقل کو اندھا نہیں ہونے دوں گا

میری خواہش ہے یہی اس کا بھلا ہو ہر دم
جس کو لگتا ہے میں اچھا نہیں دوں گا

غزل

*آئی بہار پھول کھلے جام بھر گئے*
دل میں تمہاری یاد کے  موسم اتر گئے

میں آیا تھا گزارنے دنیا میں وقت کچھ
اور یوں ہوا کہ مجھ میں زمانے
گزر گئے

اک روز لگ کے اپنے گلے روئے رات بھر
دل کو ملے تھے جتنے  سبھی زخم بھر گئے

ہم ایک زندگی میں کئی موت مر گئے

کچھ دن تمہارے پاس تھے ہم اتنا یاد ہے
ﷲ جانے تم سے بچھڑ کے کدھر گئے

انعام ہازمی

غزل

یہ جو ہم جبہ و دستار سنبھالے ہوئے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ بیکار سنبھالے ہوئے ہیں

تجھکو معلوم نہیں تیری ہنسی کو اب تک
تیرے لب پر ترے غم خوار سنبھالے ہوئے ہیں

ہم کو معلوم ہے ٹوٹی تو قیامت ہوگی
اس لئے بیچ کی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

کل جہاں آپ نے بیچا تھا ہمیں آج وہیں
ہم خریدار ہیں بازار سنبھالے ہوئے ہیں

بس یہی بات  مجھے سب سے بری لگتی ہے
یار کو بزم میں اغیار سنبھالے ہوئے ہیں

ہائے کیا عشق کا منظر ہے مری آنکھوں میں
پھول کو شاخ پہ کچھ خار سنبھالے ہوئے ہیں

ہم نہیں لوٹتے عزت تری اجلاسوں میں
شاعری ہم ترا معیار سنبھالے ہوئے ہیں