Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Thursday, December 10, 2015

غزل

تم کیا جانو کیا ہوتا ہے
جب کوئی تنہا ہوتا ہے

کھو جاتی ہے اس میں دنیا
جس کا دل دریا ہوتا ہے

خوابوں کی ہے بات نرالی
جو چاہو ویسا ہوتا ہے

میری باتیں کرتا ہے وہ???
کیا اب بھی ایسا ہوتا ہے

خود میں یوں کھویا رہتا ہوں
جیسے اک بچا ہوتا ہے

میں روشن ہوں غیر کی خاطر
جیسے ایک دیا ہوتا ہے

لگتا ہے وہ بالکل ویسا
جیسا اک سپنا ہوتا ہے

ہر چہرے کے اندر یارو
ایک نیا چہرا ہوتا ہے

جو کرتا ہے سچی باتیں
وہ بالکل اپنا ہوتا ہے

میں نے اکثر دیکھا ہے یہ
جو چاہو الٹا ہوتا ہے

سب کو مر جانا ہے اک دن
ہر وعدہ جھوٹا ہوتا ہے

ناممکن ہو جس کو پانا
وہ کتنا اچھا ہوتا ہے

عشق ہوا ہے پھر سے مجھ کو
دیکھو پھر کیا کیا ہوتا ہے

انعام عازمی

Tuesday, December 8, 2015

غزل

ایک مدت سے ہے یہ دل ناشاد
کوئی آتا رہا ہے اکثر یاد

ایک تعبیر ہو گئی پوری
یعنی اک خواب ہو گیا برباد

اے خدا ہار مان لی میں نے
اب دعا ہے نہ ہے کوئی  فریاد

کوئی ویران کر گیا ایسے
پھر یہ بستی نہیں ہوئی آباد

یہ جو دنیا ہے قید خانہ ہے
جس میں پھرتا ہر کوئی آزاد

عشق ہے درد کی وجہ صاحب
یعنی غم عشق کی ہے اک ایجاد

داستاں ختم ہو گئی,شیریں!!
مر گیا آج آپ کا فرہاد

انعام

Sunday, December 6, 2015

غزل

میرے فون میں اک ایسا نمبر بھی ہے
جس سے پہلے روزانہ
شام کا سورج ڈھلتے ہی کال آتا  تھا
پچھلے چند مہینوں سے
اس نمبر سے ایک بھی کال نہیں آیا
اور اب آئے گا بھی نہیں
میں شام کو اپنے کالج سے
جب لوج میں اپنے آتا ہوں
میں  گھنٹوں اس نمبر کو
یوں ہی دیکھتا رہتا ہوں
شاید مجھکو لگتا ہے
اس نمبر سےشاید پھر
کوئی کال آئیگا
اک آواز سنائی دے گی
بیٹا! بولو کیسے ہو ؟
کوئی دقت ہے بیٹا؟ طبیعت کیسی رہتی ہے؟
کھانا ٹھیک سے کھاتے ہو؟
چھٹی میں گھر آ جانا

لیکن اب اس نمبر سے
کوئی کال نہیں آتا
وہ نمبر "ابو جان" کا ہے
روٹھ کے جو اس دنیا سے
تنہا ہم کو چھوڑ گئے

Saturday, December 5, 2015

غزل

وہ جو اک حقیقت تھا خواب بن گیا ہے کیا
زندگی میں پھر کوئی حادثہ ہوا ہے کیا

شہر کی فضاؤں میں یہ اداسیاں کیسی
اسکی یاد میں ابتک شہر رو رہا ہے کیا

آجکل میں خود سے بھی دور دور رہتا ہوں
زندگی کا ہر قصہ ختم ہو رہا ہے کیا

سارے خواب آنکھوں سے ہو کے آ گئے باہر
کچھ سمجھ نہیں آتا۔جانے ماجرا ہے کیا

اک عجیب  بے چینی میرے دل میں رہتی ہے
وقت کی ہتھیلی پر حادثہ لکھا ہے کیا

شہر میں کہیں سے بھی اب صدا نہیں آتی
میرا چاہنے والا کوچ کر  گیا ہے کیا

آتے جاتے چہروں کو ایسے دیکھتے کیوں ہو
کوئی بے طرح پھر سے یاد آ رہا ہے کیا

کب تلک رہوگے تم انتظار میں اسکے
جا کے اپنی دنیا میں کوئی لوٹتا ہے کیا

کیوں کلام میں تیرے سوز و ساز ہے انعام
درد کی حدوں کو تو پار کر گیا ہے کیا

انعام عازمی

غزل

اب دئے کو بجھا دیجئے
نام لیکر صدا دیجئے

میرے بارے میں ہے جاننا۔؟
خاک لیکر اڑا دیجئے

پہلے میں زندگی سونپ دوں
شوق سے پھر دغا دیجئے

آپ ہم راز ہیں اس لئے
راز سب کو بتا دیجئے

حادثے اب نہیں ہو رہے
پھر سے کوئی دعا دیجئے

میں بچھڑنے کو تیار  ہوں
مجھکو کو خود سے ملا دیجئے

راحت قلب کے واسطے
نقش ماضی مٹا دیجئے

غزل

ٹل گیا ایک حادثہ پھر سے
یعنی کچھ بھی نہیں ہوا پھر سے

شور کرنے لگی ہے خاموشی
کوئی دینے لگا صدا پھر سے

خود سے بیزار ہو گیا ہوں میں
آ گیا کیسا مرحلہ پھر سے

پھر دعا میں اسی کو مانگا ہے
بخش دینا مجھے خدا پھر سے

کوئی امید پھر سے  جاگی ہے
جل رہا ہے بہاں دیا پھر سے

عشق ناکام پھر نہ ہو جائے
کر رہا ہوں میں انتہا  پھر سے

اپنا  قصہ تمام ہونا ہے
آؤ کر لیں کوئی خطا پھر سے

یہ غلط ہے ۔جو تم نے سوچا ہے
میرے بارے میں سوچنا پھر سے

پھر کہانی میں موڑ آیا ہے
کوئی کردار مر گیا پھر سے

بس اسی بات سے ہے اب خطرہ
ہو گئے لوگ با وفا پھر سے

ہو گیا ہے وہ  بانٹ کر رخصت
درد ہی درد ہر جگہ پھر سے

انعام عازمی