Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Friday, March 10, 2017

غزل

دل پر ایسے وحشت طاری ہو رہی ہے
جینے میں ہر پل دشواری ہو رہی ہے

کون یہاں پر نوحہ پڑھنے آیا تھا
قبرستان میں آہ و زاری ہو رہی ہے

کام پڑا تو یاد کئے پھر بھول گئے
سب لوگوں کو یہ بیماری ہو رہی ہے

میری چیزیں مجھکو دینے کی خاطر
حیرت ہے اب رائے شماری ہو رہی ہے

دریا خود ہی صحرا بنتا جا رہا ہے
اور پاگل مچھلی بیچاری ہو رہی ہے

تشنہ لب کی پیاس بجھانے کی خاطر
ایک ندی صحرا سے جاری ہو رہی ہے

اس کے خواب کی عادت اتنی پڑ گئی ہے
دن میں سونے کی تیاری ہو رہی ہے

لڑکی اپنا درد سنانے آئی ہے
اور آواز ہماری بھاری ہو رہی ہے

غزل

جدا ہوکر سمندر سے کنارا کیا بنے گا
نہیں سوچا ہے اب تک وہ ہمارا کیا بنے گا

مجھے یہ ایک عرصہ سے زمیں سمجھا رہی ہے
فلک سے ٹوٹ کر میرا  ستارا کیا بنے گا

میں ایسا لفظ ہوں جسکا کوئی مطلب نہیں ہے
خدا ہی جانے میرا استعارا کیا بنے گا

مصور اس لئے تم کو بنانا چاہتا ہے
اسے معلوم ہے تم بن نظارا کیا بنے گا

ہوا سے دوستی کرلی ہے میرے نا خدا نے
مری کشتی کا دریا میں سہارا کیا بنے گا

تمہارا فیصلہ منظور ہے لیکن بتاؤ
بچھڑ کے مجھ سے مستقبل تمہارا کیا بنے گا

خدائے بحر و بر  تو نے جو پھر دنیا بنائی
ہماری خاک سے مولیٰ دبارا کیا بنے گا

انعام عازمی