Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Monday, July 11, 2016

غزل

منزل ہوں,راستہ ہوں نہیں جانتا ہوں میں
اے میرے دوست کیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

ہے دل مرا اداس مری آنکھ اشک بار
کس غم میں مبتلا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

میرے خیال و خواب میں رہتا ہے کون اب
میں کس کو سوچتا نہیں جانتا ہوں میں

مقتل سے آ رہی ہے صدا میرے نام کی
کیوں قتل ہو رہا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

ٹکڑا رہا ہوں یادوں کے پتھر سے بار بار
کس سمت آ گیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

سب نا امید ہوکے ترے شہر سے گئے
میں کس لئے رکا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

یہ کون مجھکو  رائیگاں کرنے کو ہے بضد
میں کس کو مل گیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

انعام عازمی

Sunday, July 3, 2016

غزل

بستیاں چھوڑ کے صحرا میں جو آئے ہوئے ہیں
زندگی تیرے ہی یہ لوگ ستائے ہوئے ہیں

جانے والے کبھی واپس نہیں آتے پیارے
لوگ پاگل ہیں جو امید لگائے ہوئے ہیں

جو دیا تم جلایا تھا دیار دل میں
ہم اسے اب بھی ہواؤں سے بچائے ہوئے ہیں

یہ الگ بات ہے تعبیر نہیں ہے ممکن
ہم بھی آنکھوں میں کئی خواب سجائے ہوئے ہیں

ہر طرف شہر میں چھائی ہے گھٹا یادوں کی
بارش غم میں سبھی لوگ نہائے ہوئے ہیں

اب بھی وہ شخص ہمیں یاد بہت آتا ہے
ویسے ماضی کی ہر اک چیز بھلائے ہوئے ہیں

میں نے سوچا تھا محبت سے ملیں گے ہم لوگ
آپ تو جنگ کا ماحول بنائے ہوئے ہیں

انعام عازمی

غزل

غزل

گھٹا جب رنج کی  چھائے تو واپس لوٹ آنا تم
تمہیں جب چین نہ آئے تو واپس لوٹ آنا تم

میں تم سے ضد نہیں کرتا کہ واپس لوٹنا ہوگا
تمہارا دل اگر چاہے تو واپس لوٹ آنا تم

غموں کی دھوپ میں ہر دم تمہارا ساتھ دینگے ہم
سہانی شام ڈھل جائے تو واپس لوٹ آنا تم

سنو سورج محبت کا کبھی ڈھلنے لگے ,یا پھر
بڑھیں جب درد کے سائے تو واپس لوٹ آنا تم

ابھی آباد ہے گلشن  تمہارا خوش رہو جاناں
اگر ویران ہو جائے تو واپس لوٹ آنا تم

اداسی اک سمندر ہے سنو تم کو اگر اس کے
کنارے پر کوئی لائے تو واپس لوٹ آنا تم

مبارک ہو نیا کردار جان من تمہیں لیکن
کہانی ختم ہو جائے تو واپس لوٹ آنا تم

انعام عازمی

عید آئی ہے

سنو بابا
تمہیں معلوم ہی ہوگا
کہ پھرسے عید آئی ہے
میں بچوں کی طرح تم سے بہت کچھ مانگنے والا نہیں بابا
مرے بابا
مجھے عیدی نہیں لینی
نئے کپڑوں کی خواہش بھی نہیں مجھکو
مگر بابا
تمہیں تو یاد ہوگا نا
کہ جب بھی عید آتی تھی
تم اپنے ہاتھ سے  ہم تینوں بھائی  کو سدا خوشبو لگاتے تھے
مرے بابا
مجھے خوشبو لگا دونا
مرے بابا
کوئی جب اپنے بابا سے نئے کپڑے سلا دینے کو کہتا ہے
تمہاری یاد آتی ہے
کوئی جب اپنے بابا سے یہ کہتا ہے میں  عیدی اتنے پیسوں سے ذرا بھی کم نہیں لوں گا
تمہاری یاد آتی ہے
مرے بابا
کسی بیٹے کو جب بھی باپ کی انگلی کو تھامے عید گاہ جاتے ہوئے میں دیکھتا ہوں تو
تمہاری یاد آتی ہے
کوئی جب اپنے بیٹوں کے سروں پر ہاتھا رکھ کر کامرانی کی دعائیں دینے لگتا ہے
تمہاری یاد آتی ہے
سنو بابا

اگر ممکن ہو واپس لوٹ آؤ نا
تمہیں معلوم ہی ہوگا
کہ پھرسے عید آئی ہے

انعام عازمی