Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, August 24, 2016

غزل

زخموں کا کردار نبھانے والا تھا
غم کی اک تصویر بنانے والا تھا

کشتی کو منجھدار میں لانے والا تھا
میں دریا کا دل بہلانے والا تھا

تم نے جس بادل کو بے غیرت سمجھا
صحرا میں پانی برسانے والا تھا

ایک پرندہ پھر اپنی بربادی کا
پیڑوں پر الزام لگانے والا تھا

غم کی بدلی چھائی تھی ہر سو ورنہ
میں سورج کو آنکھ دکھانے والا تھا

بس بستی کی باتیں کرنے والے کو
میں صحرا کا غم سمجھانے والا تھا

تم نے اتنی دیر سے دروازہ کھولا
لوٹ گیا,جو اندر آنے والا تھا

انعام عازمی

غزل

بادل  کی ہر بات مکمل جھوٹی ہے
بارش نے صحرا کی عزت لوٹی ہے

رستے کی تعمیر نہیں کی ہے میں نے
وہ دیوار تو خود ہی گر کر ٹوٹی ہے

میں ساحل پہ ہوں کشتی منجھدار میں ہے
میں چھوٹا ہوں یا پھر کشتی چھوٹی ہے

سب پیاسے صحرا میں آکر بیٹھے ہیں
یعنی اس دریا کی قسمت پھوٹی ہے

میں نے خواب میں اس کو چھو کر دیکھا تھا
تب سے نیند کی دیوی مجھ سے روٹھی ہے

غزل

صحرا کی آنکھوں میں دریا دیکھا ہے
نا ممکن کو ہم نے ہوتا دیکھا ہے

میں جنگل سے بات نہیں کرنے والا
میں نے ایک پرندہ روتا دیکھا ہے

دیوانے کی آنکھیں سب کچھ کہتی ہیں
اس نے اپنے خواب میں کیا کیا دیکھا ہے

خوابوں کی تعبیر جہاں پر ممکن ہے
کس نے اس بستی کا رستہ دیکھا ہے

تم کو کیا جانو وحشت کس کو کہتے ہیں
تم نے بس وقت سنہرا دیکھا ہے

مجھ کو توڑ کے  رستے تعمیر کرو
میں نے ہر دیوار پہ لکھا دیکھا ہے

آخر دل نے پوچھ ہی ڈالا آنکھوں سے
تم نے کیوں اس شخص کو اتنا دیکھا ہے

Monday, August 15, 2016

غزل

مخالفوں کو بھی حیران کرنے والا ہوں
میں خود سے جنگ کا اعلان کرنے والا ہوں

تو میرے سامنے دست طلب نہ رکھ ایسے
مرے عزیز میں غم دان کرنے والا ہوں

مٹا کے حرف سبھی عشق کی کہانی کا
میں اپنی ذات پہ احسان کرنے والا ہوں

یہ دوستوں سے گزارش ہے ہوشیار رہیں
عدو کی اپنے میں پہجان کرنے والا ہوں

مرے وجود سے انکار کرنے والے سن
میں خود کو تجھ پہ ہی قربان کرنے والا ہوں

میں پہلی بار محبت میں فیصلہ کوئی
ترے خلاف مری جان کرنے والا ہوں

غزل

مری ذات سے ترا غم جدا نہیں ہو رہا
مرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا

اسے ڈھونڈیے وہ کہاں گیا جو امین تھا
مرے شہر میں کوئی حادثہ نہیں ہو رہا

مجھے پوچھنا ہے فقط یہی  اے مرے خدا
مرے حق میں کیوں ترا فیصلہ نہیں ہو رہا

مرے ہم سفر تجھے سوچنا بھی تو چاہئے
ترے ساتھ جو ہے وہ کیوں کھڑا نہیں ہو رہا

مرے حال زار کو دیکھ کر سر شہر اب
ترے عشق میں کوئی مبتلا نہیں ہو رہا

انعام عازمی

Saturday, August 6, 2016

غزل

خوشی کی ناؤ پہ غم کو سوار کر رہے تھے
ہم اک صدی سے ترا انتظار کر رہے تھے

اسی لئے تو پرندوں نے بد دعا دی تھی
تمام لوگ درختوں پہ وار کر رہے تھے

جو ایک بات مجھے رنج دینے والی تھی
مرے عزیز وہی بار بار کر رہے تھے

جو تیر سکتے تھے کشتی کے انتظار میں تھے
جو ڈوب سکتے تھے دریا کو پار  کر رہے تھے

نہ میرے دوست ,نہ دشمن,نہ میرے اپنے تھے
وہ اور لوگ تھے جو مجھ سے پیار کر رہے تھے

غزل

ٹوٹی ہوئی کشتی کا سہارا نہیں ہونا
دریا مجھے رہنا ہے کنارا نہیں ہونا

اب کس لئے اے دوست ترے شہر میں ٹھہریں
جب کہہ دیا اس نے کہ تمہارا نہیں ہونا

اے عشق مری تجھ سے ہے بس ایک گزارش
میں ٹوٹ گیا مجھکو دوبارہ نہیں ہونا

لوگوں نے مجھے دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے
اب مجھکو کسی صبح کا تارا نہیں ہونا

اے دوست تعلق نہیں رکھنا ہے کسی سے
اب مجھکو کسی شخص کا یارا نہیں ہونا

غزل

مجھ سے اک شخص پھر خفا ہوا ہے
میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا ہے

اپنے اندر نہیں ہوں میں لیکن
مجھ میں اب تک کوئی رکا ہوا ہے

جب میں ساری سزائیں کاٹ چکا
تب مرے حق میں فیصلہ ہوا ہے

شاخ سے اڑ گئے پرندے کیا
کیوں درختوں کا منہ بنا ہوا ہے

ایک میں ہوں مرا سوا مجھ میں
دوسرا کون آ گیا ہوا ہے

یہ محلہ بھی تھا کبھی آباد
دل کی دیوار پر لکھا ہوا ہے

آ رہی ہے صدائیں چیخنے کی
مجھ میں پھر کوئی حادثہ ہوا

کیا کہا عشق ہو گیا ہے تمہیں
جو ہوا ہے بہت برا ہوا ہے

غزل

تمنا جس کی تھی ہم کو اسے پانا ضروری تھا
محبت میں حدوں کو پار کر جانا ضروری تھا

دیا امید کا روشن تھا میرے دل کے آنگن میں
مخالف تھی ہوا یادوں کی گھبرانا ضروری تھا

تمہاری یاد میں کوئی بہت ٹوٹا بہت بکھرا
تمہارا لوٹ کر اے جان جاں آنا ضروری تھا

کہانی ایک ایسے موڑ پر آکر رکی اپنی
ہمیں ہنستے ہوئے اس سے بچھڑ جانا ضروری تھا

ضرورت کیا تھی شمع پر بھلا یوں جان دینے کی
کہا ہنستے ہوئے سب سے یہ پروانہ, ضروری تھا

غزل

عشق کو ذات کا عنوان نہیں کر سکتا
روح کو اور پریشان نہیں کر سکتا

پیار میں اس نے وہی شرط رکھی ہے یارو
جس کو پورا کوئی انسان نہیں کر سکتا

مجھکو چہرے پہ لکھا پڑھنا نہیں آتا ہے
میں کسی شخص کی پہچان نہیں کر سکتا

یاد ماضی اگر آتی ہے یہی سوچتا ہوں
یار اتنا برا بھگوان نہیں کر سکتا

دل کی اب بات سمجھنی ہے نہ سمجھانی ہے
عقل کو اور میں حیران نہیں کر سکتا

اپنے راجہ کو بچانے کیلئے منتری دوں؟؟؟
میں تو پیادہ بھی بلیدان نہیں کر سکتا

یار میں تجھکو تسلی نہیں دے سکتا ہوں
تیری مشکل کو جب آسان نہیں کر سکتا

یاد کے گہرے سمندر کو ابھی پار کروں؟
تیز ہے وقت کا طوفان,نہیں کر سکتا

تجھکو جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہوں
اپنی بستی کو میں ویران نہیں کر سکتا

رات کے بارہ بجے کال کروں میں تم کو؟؟
نیند پیاری ہے مری جان,نہیں کر سکتا

مجھ کو دنیا میں اتارا گیا ہے اس کے لئے
میں کسی اور طرف دھیان نہیں کر سکتا