Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Friday, April 24, 2015

میری غزل

شور برپا ہے کوئی اور نہ صدا ہے مجھ میں
ایسا لگتا ہے کوئی روٹھ گیا ہے مجھ میں

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﻨﮓ ﭘﮧ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺣﺸﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ

اے بھٹکتے ہوئے رہگیر میرے اندر جھانک
تیرا رستہ تیری منزل کا پتہ ہے مجھ میں

غرق ہو جاتی ہیں خوشیاں سبھی مجھ میں آکر
اک اداسی کا سمندر جو چھپا ہے مجھ میں

تو اگر آئیگا مجھ میں تو بکھر جائیگا
تیز بہتی ہوئی بے سمت  ہوا ہے مجھ میں

روح زخمی ہے اور جسم ہے ریزہ ریزہ
میرے ہمدرد تو کیا ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

میری امید کی شمعیں نہیں جلنے پاتیں
ایسا لگتا ہے کی طوفان بپا ہے مجھ میں

کچھ نہیں ایسا جو قربان کروں میں تجھ پر
ﺭﻧﺞ ہے ﻏﻢ ﮨﮯ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﮯ ﺑﻼ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ

ﺧﺎﻣﺸﯽ ﭼﯿﺦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﺗﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ

دربدر ہو گئی امید کی موہوم کرن
حادثہ کوئی نیا پھر سے ہوا ہے مجھ میں

اک بھرم جس پے میری ذات   تھی زندہ انعام
مجھ کو معلوم ہے وہ ٹوٹ چکا ہے مجھ میں

انعام عازمی

No comments:

Post a Comment